اہلِ بیتؑ کی تاریخ

حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں جنہوں نے انسانیت کو گمراہی سے نکال کر توحید، عدل اور رحم کا پیغام دیا۔ اس مضمون میں ہم صرف اور صرف اس نبی کریم ﷺ کی اس حکمت بھرے دور پر بات کریں گے جب اسلام کی دعوت خفیہ طور پر دی گئی — یعنی دعوتِ اسلام کا خفیہ مرحلہ۔


خفیہ تبلیغ کا پس منظر

جب حضرت محمد ﷺ کو نبوت ملی تو مکہ میں بت پرستی، ظلم، طبقاتی فرق اور اخلاقی پستی عام تھی۔ ایسے ماحول میں کھلے عام حق کی بات کرنا نہایت خطرناک ہوتا۔ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم تھا کہ ابتدا میں دین کی دعوت صرف اُن لوگوں کو دی جائے جو قریب ہوں، بااعتماد ہوں، اور جن کے دل حق کی تلاش میں ہوں۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر خفیہ دعوت کا آغاز ہوا۔


خفیہ تبلیغ کی حکمتیں اور وجوہات

  1. قریش کی سخت مزاحمت سے بچاؤ: مکہ کے سردار اسلام کی تعلیمات کو اپنے اقتدار، مذہبی حیثیت اور مالی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ اگر ابتدا ہی میں دعوت علانیہ ہوتی تو شدید ردِعمل ہوتا۔

  2. ایمان لانے والوں کی حفاظت: ابتدائی مسلمان کمزور اور محدود تھے۔ ان کو ایمان کے ابتدائی تقاضے سکھانے اور ان کی تربیت کے لیے پرامن فضا ضروری تھی۔

  3. دعوت کا منظم آغاز: نبی کریم ﷺ چاہتے تھے کہ پہلے ایک ایسا گروہ تیار ہو جائے جو بعد میں اسلام کے پیغام کو آگے پھیلانے کے لیے مضبوط کردار ادا کرے۔

  4. قلبی اور ذہنی تربیت: اسلام صرف نعرہ نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اس کے لیے ایسے افراد کی ضرورت تھی جو علم، کردار، اور صبر میں مضبوط ہوں۔


خفیہ تبلیغ کا انداز

حضرت محمد ﷺ نے نہ کوئی جلسہ کیا، نہ منادی کی، نہ کسی قافلے کو روک کر اعلان کیا۔ بلکہ:

  • انفرادی ملاقاتیں کی گئیں

  • رات کے وقت گفتگو ہوتی

  • دارِ ارقم جیسے محفوظ مقامات پر اجتماع کیا جاتا

  • صرف ان افراد کو دعوت دی جاتی جن پر مکمل بھروسہ ہوتا

یہ سادہ مگر حکیمانہ انداز ہی وہ بنیاد بنی جس پر بعد میں اسلامی معاشرہ قائم ہوا۔


دارِ ارقم: خفیہ تبلیغ کا مرکز

حضرت محمد ﷺ نے صفا پہاڑی کے قریب ایک محفوظ مکان دارِ ارقم کو خفیہ تبلیغ کا مرکز بنایا۔ یہاں:

  • قرآن کی آیات کی تلاوت اور وضاحت کی جاتی

  • نماز سکھائی جاتی

  • سوالات کے جوابات دیے جاتے

  • صحابہؓ کو اخلاق، صبر، اور تبلیغ کے آداب سکھائے جاتے

یہ مقام اسلام کا پہلا تعلیمی و دعوتی مرکز تھا جہاں بغیر شور و شرابے کے، انقلاب کی تربیت ہو رہی تھی۔


ابتدائی مسلمانوں کی استقامت

خفیہ تبلیغ کے دوران ایمان لانے والوں کو آزمائشوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

  • حضرت خدیجہؓ نے نبی کریم ﷺ کی دل و جان سے حمایت کی

  • حضرت علیؓ نے بچپن میں ہی سچائی قبول کی

  • حضرت ابوبکرؓ کے ذریعے کئی اہم افراد مسلمان ہوئے

  • حضرت بلالؓ، حضرت یاسرؓ، اور حضرت سمیہؓ جیسے افراد نے اسلام کے لیے ظلم سہے

ان سب کی قربانیاں خفیہ دعوت کی کامیابی کی علامت بنیں۔


قریش کی نگرانی اور دباؤ

اگرچہ یہ دعوت خفیہ تھی، لیکن قریش نے اس کی سرسری خبریں حاصل کر لی تھیں۔ انہوں نے:

  • مجلسوں میں جاسوس بھیجنے شروع کیے

  • نوجوانوں کو ڈرایا، دبایا

  • غلاموں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا

  • نئے مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کیا

لیکن نبی ﷺ نے ہر موقع پر صبر، دعا، اور حکمت سے کام لیا۔ نہ انتقام لیا، نہ سختی کی، بلکہ دعوت کا عمل خاموشی اور اخلاق کے ذریعے جاری رکھا۔


خفیہ تبلیغ کا اثر

  • ایک مضبوط، تربیت یافتہ، اور مخلص جماعت تیار ہوئی

  • قرآن کی ابتدائی آیات قلوب میں راسخ ہوئیں

  • مسلمانوں میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہوا

  • لوگ شخصیت، کردار، اور سچائی سے متاثر ہو کر ایمان لاتے

یہ وہی جماعت تھی جس نے بعد میں میدانِ بدر، احد، اور ہجرت جیسے بڑے امتحانات میں اسلام کا جھنڈا بلند رکھا۔


نتیجہ

دعوتِ اسلام کا خفیہ مرحلہ محض تین سالہ خاموش دور نہیں، بلکہ یہ اسلام کی فکری، اخلاقی، اور تنظیمی بنیادوں کا سنہری دور تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے صبر، حکمت، اور اخلاق کے ذریعے وہ بیج بویا جس سے ایک عالمی پیغام پھوٹا۔ آج اگر ہم دینِ اسلام کے فروغ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی جڑیں انہی خاموش قدموں سے مضبوط ہوئیں جنہیں "خفیہ تبلیغ” کہا جاتا ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔