رسول اللہ ﷺ کو قریشِ مکہ کی شدید مخالفت، طعن و تشنیع، اور جسمانی و ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ ﷺ کا پیغام توحید، عدل، مساوات اور بت پرستی کی نفی پر مبنی تھا، جس نے عرب کے سرداروں کو چیلنج کیا۔ وہ اپنے آبائی مذہب، بتوں کی پوجا، اور تجارتی مفادات سے جُڑے نظام کو خطرے میں محسوس کرنے لگے۔
قریش کا ابتدائی ردِعمل
قریش کے سرداروں نے ابتدا میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اسے نظرانداز کیا، مگر جب اسلام کا پیغام آہستہ آہستہ مکہ کے مختلف طبقات، خصوصاً غلاموں، نوجوانوں اور معاشرے کے کمزور افراد تک پہنچا اور وہ دینِ اسلام کو قبول کرنے لگے، تو سردارانِ قریش کی غیرت اور ان کے سماجی، سیاسی و معاشی مفادات کو زک پہنچی۔
قرآن مجید میں ان کے ردعمل کی تصویر یوں پیش کی گئی ہے:
"اور وہ کہتے ہیں: یہ جادوگر ہے، جھوٹا ہے۔ کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک معبود بنا دیا؟ بیشک یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔” (سورۃ ص، آیت 4-5)
طعن و تشنیع کے مختلف انداز
1. زبان سے اذیت دینا
- (الذاریات: 39، الطور: 29) رسول اللہ ﷺ کو "مجنون”، "ساحر”، "کاہن” اور "شاعر” کہہ کر توہین کی گئی۔
• (سورۃ الأنفال: 31) قرآن کے پاکیزہ الفاظ کو "پرانے لوگوں کی کہانیاں” کہا گیا۔
• (حم السجدہ: 26) مشرکین نے ایک دوسرے سے کہا: "اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے دوران شور مچاؤ۔”
2. معاشرتی بائیکاٹ
- رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کو قبیلوی و خاندانی تعلقات سے منقطع کر دیا گیا۔
• ان پر معاشی، تجارتی اور نکاح کے راستے بند کیے گئے۔ (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 375)
3. جسمانی اذیتیں
- رسول اللہ ﷺ کے سجدے کے دوران اونٹ کی اوجھ آپ کے پشت پر ڈال دی گئی۔ (صحیح بخاری، حدیث: 240)
• راستے میں کانٹے بچھا کر اذیت دی گئی، آپ ﷺ پر گندگی پھینکی گئی۔
• حضرت ابوبکرؓ نے جب ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کو بچانے کی کوشش کی تو اُن پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ بیہوش ہو گئے۔ (البدایہ والنہایہ، جلد 3، صفحہ 29)
ابو جہل، ابو لہب اور دیگر سرداروں کا کردار
ابو لہب
- نبی کریم ﷺ کا چچا ہونے کے باوجود اسلام کا بدترین دشمن بن گیا۔
• اللہ تعالیٰ نے سورۃ المسد میں اس کی مذمت کی:
"تبّت یدا ابی لہب و تب…” (سورۃ المسد: 1)
• اس کی بیوی اُم جمیل کانٹے بچھا کر نبی ﷺ کو اذیت پہنچاتی تھی۔ (تفسیر ابن کثیر)
ابو جہل
- مکہ کا سب سے مغرور سردار، بار بار نبی ﷺ کے قتل کی سازش کرتا رہا۔
• غزوہ بدر میں قتل ہوا۔ (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 230)
دیگر مشرکین
- ولید بن مغیرہ: قرآن کو جادو قرار دیا۔ (سورۃ المدثر: 24-25)
• عاص بن وائل، عقبہ بن ابی معیط: نبی ﷺ پر تھوکتے، مذاق اُڑاتے۔ (دلائل النبوۃ، بیہقی، جلد 2، صفحہ 191)
رسول اللہ ﷺ کو پیش کشیں
قریش کے سرداروں نے رسول اللہ ﷺ کو خاموش کرانے کے لیے دنیاوی مراعات کی پیشکش کی:
- مکہ کی سرداری
• مال و دولت
• جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے طبیب
مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دیں، تب بھی میں اللہ کے پیغام کی تبلیغ سے باز نہ آؤں گا۔” (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 293)
صحابہ کرامؓ پر مظالم
- حضرت بلال حبشیؓ کو دہکتے سورج میں ریت پر لٹایا گیا، سینے پر پتھر رکھا گیا۔ (الاصابہ، جلد 1، صفحہ 169)
• حضرت یاسرؓ اور حضرت سمیہؓ کو شہید کیا گیا — سمیہؓ اسلام کی پہلی شہیدہ تھیں۔ (الاستیعاب، جلد 4، صفحہ 1806)
• حضرت خبابؓ بن الارت کو دہکتے کوئلوں پر لٹایا گیا۔ (صحیح بخاری، حدیث: 3855)
رسول اللہ ﷺ کا ردِعمل: صبر، دعا اور حکمت
آپ ﷺ نے کبھی بدلہ نہ لیا، بلکہ صبر، اخلاق، اور دعاؤں سے کام لیا۔
ایک موقع پر فرمایا:
"اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، یہ لوگ جانتے نہیں۔” (صحیح مسلم، حدیث: 1792)
نتائج و اثرات
قریش کی مخالفت جتنی بڑھی، اسلام اتنا ہی پھیلتا گیا۔ کمزور طبقات میں اسلام نے نئی روح پھونکی۔ رسول اللہ ﷺ کے حسنِ اخلاق، صبر، اور سچائی نے دل جیت لیے۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا:
"اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔” (الانبیاء: 107)
حوالہ جات:
صحیح بخاری: حدیث 240، 3855
• صحیح مسلم: حدیث 1792
• سیرت ابن ہشام: جلد 1 و 2
• البدایہ والنہایہ: ابن کثیر، جلد 3
• دلائل النبوۃ: بیہقی، جلد 2
• الاصابہ: ابن حجر
• الاستیعاب: ابن عبدالبر
• تفسیر ابن کثیر
• قرآن مجید: سورۃ ص، الأنفال، السجدہ، المسد، المدثر، الانبیاء
نتیجہ
قریش کی یہ مخالفت محض زبانی یا وقتی نہ تھی بلکہ ایک باقاعدہ مہم تھی جس کا مقصد دعوتِ اسلام کو دبانا اور رسول اللہ ﷺ کو روکنا تھا۔ مگر نبی کریم ﷺ نے صبر، برداشت، اور حکمت کے ساتھ اس کا سامنا کیا۔ ان کی ثابت قدمی، دعائیں اور اخلاقیات آج بھی دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔