اہلِ بیتؑ کی تاریخ

فضیلت امام علی: حالت رکوع میں زکوٰۃ دینے کا منفرد اعزاز

Fazilat e Imam Ali

فضیلت امام علی کی بے شمار دلیلیں قرآن و سنت میں بکھری پڑی ہیں، جن میں سے ایک پرشکوہ واقعہ آیت ولایت کا نزول ہے۔ یہ وہ منفرد موقع تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت امام علی کو ابدی قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا اور اپنے رسول کا ولی قرار دیا۔ یہ واقعہ نہ صرف فضیلت امام علی کی واضح اور ناقابل تردید دلیل ہے بلکہ ہر ایمان والے کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔ اس واقعے نے فضیلت امام علی کے مقام و مرتبہ کو قرآن مجید کے الفاظ میں ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا۔

قرآن مجید میں فضیلت امام علی کا اعلان

اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ میں ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (سورة المائدہ، آیت: 55)
"تمہارا دوست و مددگار اور حاکم صرف اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔”

اس مقدس آیت کے نزول کے پس منظر میں تمام معتبر مفسرین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت خاص طور پر فضیلت امام علی کی شان میں نازل ہوئی۔ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب ایک سائل نے مسجد نبوی میں مدد مانگی تو نماز کے دوران رکوع کی حالت میں ہی حضرت علی علیہ السلام نے اپنی قیمتی انگوٹھی خاموشی سے اس سائل کی طرف بڑھا کر عطا فرما دی۔

اس بے مثال عمل نے فضیلت امام علی کا وہ معیار قائم کیا جو قیامت تک کے لیے قرآن کریم کا حصہ بن گیا۔ یہ واحد موقعہ تھا جب کسی نے حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی برکت اور عظمت کو ہمیشہ کے لیے اپنی کتاب میں محفوظ فرما لیا۔ یہ عمل فضیلت امام علی کی بلندی اور ان کے بے مثال ایثار کو دکھاتا ہے۔

 فضیلت امام علی کا زندہ منظر

متعدد معتبر تاریخی مصادر و مآخذ، جیسے کہ تفسیر طبری، کشف الغمہ، اور در المنثور میں تفصیل سے درج ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک اعرابی حاضر ہوا جو سخت مفلس اور حاجت مند تھا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جسم پر غربت و افلاس کے آثار نمایاں تھے۔ اس نے مسجد میں حاضر ہو کر تعاون کی درخواست کی مگر اس وقت موجود صحابہ کرام کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔

اسی لمحے حضرت علی علیہ السلام نماز میں رکوع کی حالت میں تھے۔ انہوں نے سائل کو اپنی انگوٹھی سے اشارہ کیا، سائل نے آگے بڑھ کر وہ انگوٹھی لے لی۔ یہ پورا منظر حضور نبی اکرم ﷺ کی نگاہوں کے سامنے ہوا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: "علی بن ابی طالب میرے بعد تمہارا ولی ہیں۔” اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے فضیلت امام علی کو ہمیشہ کے لیے آسمان دنیا پر ثبت کر دیا۔

یہ واقعہ فضیلت امام علی کی اس اعلیٰ مثال کو ظاہر کرتا ہے جہاں عبادت کی گہرائی اور خدمت خلق کا بے مثال امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ نماز جیسے مقدس عمل کے دوران بھی ایک مخلوق خدا کی حاجت روائی کو ترجیح دینا ہی درحقیقت فضیلت امام علی کی وہ حقیقت ہے جسے قرآن نے امر کر دیا۔

صحابہ کرام کا اعترافِ فضیلت امام علی

اس واقعے کے بعد صحابہ کرام نے بھی فضیلت امام علی کا برملا اعتراف کیا۔ معروف شاعر صحابی حسان بن ثابت نے فوراً کھڑے ہو کر یہ تاریخی اشعار پڑھے جن کا مفہوم ہے:

أَبَا حَسَنٍ فَدَتُكَ نَفْسِي وَمَهْجَتِي  فَأَنْزَلَ فِيكَ اللَّهُ خَيْرَ وَلَايَةٍ وَبَيَّنَهَا فِي مُحْكَمَاتِ الشَّرَائِعِ
"اے ابو الحسن! میری جان و مال آپ پر قربان پس اللہ نے آپ پر بہترین ولایت نازل فرمائی اور اسے محکم شرائع میں واضح طور پر بیان کیا۔”

یہ اشعار فضیلت امام علی کے اس پہلو کی زندہ گواہی ہیں کہ ان کا عمل صرف ایک معمولی صدقہ نہیں تھا بلکہ ایک عظیم روحانی فریضہ کی بنیاد بنا۔ ان اشعار سے فضیلت امام علی کے مقام کا صحابہ کرام نے بھی اقرار کیا۔

ایک اور زاویہ سے فضیلت امام علی کا اثبات

ایک اور معروف روایت میں حضرت ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "علی پرہیزگاروں کے رہنما اور کافروں کے قاتل ہیں۔ جو اس کی مدد کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا اور جو اسے تنہا چھوڑے گا اللہ اسے تنہا چھوڑ دے گا۔” پھر انہوں نے اسی واقعہ انگوٹھی کو بیان کیا کہ کیسے رکوع میں انہوں نے سائل کی حاجت پوری کی۔ اس سے فضیلت امام علی کے مقام کی وسعت اور ان کی قیادت کے عالمگیر پہلو کا پتہ چلتا ہے۔ یہ روایت فضیلت امام علی کے ان فرائض کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو انہیں رسول اللہ ﷺ کے بعد اُمت کی رہبری کے لیے سونپے گئے۔

فضیلت امام علی: ایثار اور قربانی کی معراج

فضیلت امام علی کا یہ پہلو صرف دولت کے صدقے تک محدود نہیں۔ سورہ  (الانسان) کا نزول ان کی اور ان کے پاک خاندان کی قربانی پر ہوا، جہاں انہوں نے تین دن تک مسلسل اپنا کھانا مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلا کر خود اور ان کا خاندان بھوکا رہا۔ یہ ایثار فضیلت امام علی اور ان کے خاندان کی اخلاقی اور روحانی برتری کو دکھاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بے مثال عمل کی تعریف میں پوری سورت نازل فرمائی، جس میں ان کے ایثار کو "وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا” کے الفاظ میں بیان کیا گیا۔ یہ فضیلت امام علی کے گھرانے کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اعتراضات کے جوابات اور فضیلت امام علی کا تسلسل

کچھ لوگ اس فضیلت امام علی کے واقعے پر اعتراض کرتے ہیں، لیکن یہ اعتراضات حقیقت اور تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی ہیں۔

  • اعتراض: تین دن مسلسل بھوکا رہنا انسانی طور پر ممکن نہیں۔
    • جواب: اولیاء اللہ اور بزرگان دین کے لیے یہ بالکل ممکن ہے۔ تاریخ میں ریاضت و عبادت کرنے والے افراد کے ایسے کارنامے درج ہیں۔ مزید برآں، یہ فضیلت امام علی اور ان کے پاک خاندان کا ایک معجزہ بھی تھا جو ان کی روحانی و اخلاقی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ان کی خاص فضیلت امام علی کا ایک حصہ تھی۔
  • اعتراض: اپنے چھوٹے بچوں کو بھوکا رکھ کر دوسروں کو کھلانا درست نہیں۔
    • جواب: یہ درحقیقت فضیلت امام علی کا وہ بے مثال ایثار ہے جس کی قرآن خود تعریف کرتا ہے: "وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ" (اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود انہیں شدید ضرورت ہو)۔ یہ عمل ان کی بلند روحانی فضیلت امام علی اور ان کے خاندان کے تربیت یافتہ ہونے کو ہی ظاہر کر سکتا ہے کہ انہوں نے اللہ کی رضا کے سامنے اپنی تمام تر دنیاوی ضرورتوں کو قربان کر دیا۔

خلاصہ: ابدی سبق اور دائمی نمونہ

آیت ولایت اور سورہ دَهر کا نزول درحقیقت فضیلت امام علی کے ایک ایسے جامع پہلو کو اجاگر کرتا ہے جو ہر دور کے مسلمان کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ یہ واقعات واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ فضیلت امام علی کا مقام و مرتبہ محض جنگوں اور فتوحات تک محدود نہیں، بلکہ ان کی عبادت کی گہرائی، ان کا بے پناہ ایثار، ان کی بے مثال خدمت خلق اور ان کی محبت الٰہی ہی وہ بنیادیں ہیں جن پر ان کی ولایت و امامت قائم ہے۔

 فضیلت امام علی کا یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جو عبادت کے مقدس لمحات میں بھی انسانیت کی خدمت سے جڑا رہے اور اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کی ضروریات کو اہمیت دے۔ یہی فضیلت امام علی کا وہ ابدی پیغام ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

فضیلت امام علی: حالت رکوع میں زکوٰۃ دینے کا منفرد اور بے مثال اعزاز

فضیلت امام علی کی بے شمار اور درخشاں دلیلیں قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں، جن میں سے ایک سب سے پرشکوہ اور واضح واقعہ سورہ مائدہ میں آیت ولایت کا نزول ہے۔ یہ وہ منفرد اور تاریخی موقع تھا جب اللہ تعالیٰ نے خود حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت امام علی کو ابدی قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا، اپنے رسول کا اور تمام مومنین کا ولی قرار دیا۔

یہ واقعہ نہ صرف فضیلت امام علی کی واضح اور ناقابل تردید دلیل ہے بلکہ ہر صاحب ایمان انسان کے لیے ہمیشہ کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔ اس واقعے نے فضیلت امام علی کے مقام و مرتبہ کو قرآن مجید کے الفاظ میں ہمیشہ کے لیے ثبت اور محفوظ کر دیا۔ یہ فضیلت امام علی کا وہ پہلو ہے جسے کوئی بھی صاحب علم شخص نظر انداز نہیں کر سکتا۔

قرآن مجید میں فضیلت امام علی کا واضح اور صریح اعلان

اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ میں ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (سورة المائدہ، آیت: 55)
"تمہارا دوست و مددگار اور حاکمِ اعلیٰ صرف اللہ ہے اور اس کا رسول (محمد ﷺ) اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔”

اس مقدس آیت کے نزول کے پس منظر میں تمام معتبر مفسرین اور محدثین کا اس پر کامل اتفاق ہے کہ یہ آیت خاص طور پر فضیلت امام علی کی شان میں نازل ہوئی۔ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب ایک سائل نے مسجد نبوی میں مدد مانگی تو نماز کے دوران رکوع کی حالت میں ہی حضرت علی علیہ السلام نے اپنی قیمتی انگوٹھی خاموشی سے اس سائل کی طرف بڑھا کر عطا فرما دی۔

اس بے مثال اور لاجواب عمل نے فضیلت امام علی کا وہ معیار قائم کیا جو قیامت تک کے لیے قرآن کریم کا حصہ بن گیا۔ یہ واحد موقعہ تھا جب کسی نے حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی برکت اور عظمت کو ہمیشہ کے لیے اپنی کتاب میں محفوظ فرما لیا۔ یہ عمل فضیلت امام علی کی بلندی اور ان کے بے مثال ایثار کو دکھاتا ہے۔ یہ فضیلت امام علی کی وہ دلیل ہے جو ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گی۔

نزولِ آیت کے متعلق پہلی روایت: فضیلت امام علی کا زندہ منظر

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے اسلام قبول کیا۔ ان میں عبداللہ بن سلام، اسد، ثعلبہ اور ابن صوریا جیسے جلیل القدر افراد سرفہرست تھے۔ یہ لوگ رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حضرت مولیٰ نے حضرت یوشع بن نون کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا، آپ کے بعد ہمارا سرپرست کون ہے؟ اس وقت یہ آیت إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ نازل ہوئی۔ پھر رسول خدا ﷺ نے فرمایا: اٹھو اور مسجد کی طرف چلیں۔ جب مسجد کے قریب پہنچے تو وہاں سے ایک سائل نکل رہا تھا۔

آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تجھے کسی نے کچھ عطا کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، مجھے یہ انگوٹھی ملی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: یہ انگوٹھی کس نے عطا کی ہے؟ سائل نے کہا: مجھے یہ انگوٹھی اس شخص نے دی ہے جو نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اس نے تجھے انگوٹھی دی تھی تو وہ کس حالت میں تھا؟ سائل نے کہا: اس نے حالت رکوع میں مجھے یہ انگوٹھی دی تھی۔ رسول اکرم ﷺ نے تکبیر کہی اور آپ کے ساتھ اہل مسجد نے بھی تکبیر کہی۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: علی بن ابی طالب میرے بعد تمہارا ولی اور سرپرست ہے۔

حاضرین نے کہا: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، محمد ﷺ کے نبی ہونے اور علی علیہ السلام کے ولی ہونے پر راضی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی:

 وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (سورہ مائدہ: آیت 56)

"جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کی ولایت کو قبول کرے گا، بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب ہے۔” اس موقع پر حسان بن ثابت کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ تاریخی اشعار کہے:

أَبَا حَسَنٍ فَدَتْكَ نَفْسِي وَمَهْجَتِي  فَأَنْتَّ الَّذِي أَعْطَيْتَ إِذْ كُنْتَ رَاكِعًا  فَأَنْزَلَ فِيكَ اللَّهُ خَيْرَ وَلَايَةٍ وَبَيَّنَهَا فِي مُحْكَمَاتِ الشَّرَائِعِ

"اے ابو الحسن! میری جان اور میری روح آپ پر قربان ہو اور دنیا میں ہر چلنے والا تیز رو اور شست رو مجھ پر قربان ہو۔ پس آپ ہی ہیں جس نے حالت رکوع میں خیرات عطا کی۔ اے بہترین رکوع کرنے والے! لوگوں کی جانیں آپ پر قربان ہوں۔ خدا نے تمہارے حق میں بہترین ولایت نازل فرمائی اور اسے محکم شرائع میں بیان کیا۔”

حسان بن ثابت نے اس موضوع پر یہ اشعار بھی کہے تھے:

عَلِيٌّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَخُو الْهُدَى  وَأَوَّلُ مَنْ أَدَّى الزَّكَاةَ بِكَفِّهِ  فَقَدْ سَارَ إِلَيْهِ خَاتَمًا وَهُوَ رَاكِعٌ  فَإِلَيْهِ وَلَمْ يَبْخَلْ وَلَمْ يَكُ جَافِيًا

"علی امیر المومنین ہیں، صاحب ہدایت ہیں اور جوتا پہننے والے اور ننگے پاؤں چلنے والوں سے افضل ہیں۔ وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے اپنے ہاتھ سے زکوٰۃ دی اور وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے نماز پڑھی اور بھوکا رہ کر روزہ رکھا۔ جب سائل ان کے پاس گیا تو انھوں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف دراز کیا اور انھوں نے کسی طرح کے بخل کا مظاہرہ نہ کیا اور وہ سنگ دل نہیں ہیں۔ حالت رکوع میں اسے انگوٹھی دی، وہ ہمیشہ سے ہی نیکی کے کاموں میں سبقت حاصل کرنے والے رہے ہیں۔”

حضرت خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین نے آپ کو ان الفاظ سے خراج عقیدت پیش کیا:

فَدَيْتُ عَلِيًّا إِمَامَ الْوَرَى  سِرَاجُ الْبَرِيَّةِ مَأْوَى التُّقَى  تَصَدَّقَ عَاتِبَهُ رَاكِعًا  فَأَحْسَنَ بِفِعْلِ إِمَامِ الْوَرَى  فَفَضَّلَهُ اللَّهُ رَبُّ الْعِبَادِ  وَأَنْزَلَ فِي شَأْنِهِ هَلْ أَتَى

"کائنات کے امام علی پر میری جان قربان ہو، وہ مخلوق میں چراغ ہیں اور پرہیزگاری کا ماویٰ ہیں۔ انھوں نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی راہ خدا میں صدقہ کی ہے۔ امام کائنات کا یہ فعل کتنا ہی بہتر اور خوبصورت ہے۔ بندوں کے پروردگار نے اسے فضیلت بخشی اور اس کی شان میں سورہ ‘ہل اتی’ نازل فرمائی۔”

نزول آیت کے متعلق دوسری روایت: جابر بن عبداللہ انصاری کی گواہی

جابر بن عبداللہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد نبوی میں رسول خدا ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس اثنا میں ایک اعرابی آیا، جس کے سر کے بالوں میں خاک تھی اور اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس کی شکل وصورت سے غربت و مفلسی ٹپک رہی تھی۔ اس کے ہمراہ اس کے کمسن بچے تھے۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اپنی غربت کا اظہار ان اشعار سے کیا:

يَا رَسُولَ رَبِّي أَتَيْتُكَ وَالْعُذْرُ بَكَى  وَقَدْ ذَهَلَتْ أُمُّ الصَّبِيِّ عَنِ الطِّفْلِ  وَقَدْ مَسَّنِي فَقْرٌ وَذُلٌّ وَفَاقَةٌ  وَلَسْنَا نَرَى إِلَّا إِلَيْكَ فِرَارَنَا  فَأَيْنَ مَفَرُّ الْخَلْقِ إِلَّا إِلَى الرُّسُلِ

"یا رسول رب! میں آپ کے پاس اس حالت میں آیا ہوں کہ میری کنواری بیٹی زور زور سے رو رہی ہے اور بچے کی ماں (غم کے مارے) بچے کو بھول چکی ہے۔ میری ایک بین دو پیٹیاں اور ایک بوڑھی ماں ہے۔ افلاس نے میری عقل پر پردہ ڈال دیا ہے۔ فقر، ذلت اور فاقہ نے مجھے گھیر لیا ہے۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے نہ میٹھی چیز ہے نہ کڑوی۔ ہم بھاگ کر آپ کے پاس آئے ہیں، کیونکہ مخلوق کا قلوق رسولوں کی طرف نہیں جائے گا تو پھر کہاں جائے گی؟”

رسول اکرم ﷺ نے اس کی داستانِ غربت سنی تو آپ نے بہت زیادہ گریہ کیا اور اپنے صحابہ سے فرمایا: "اے گروہ مسلمین! اللہ نے تمھیں ثواب کمانے اور اجر عظیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ جو اس کی حاجت روائی کرے گا، تو خدا اسے جنت میں ابراہیم خلیل اللہ کے محل کے سامنے جگہ عطا کرے گا۔ تم میں سے کون ہے جو اس غریب کی غمگساری کرے؟” بزمِ صحابہ میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام مسجد کے ایک کونے میں نماز نوافل ادا کر رہے تھے۔

آپ نے اپنے ہاتھ سے اعرابی کو اشارہ کیا۔ وہ آپ کے قریب آیا۔ آپ نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی اتار کر اس کے سپرد کی۔ اعرابی نے انگوٹھی لی اور واپس چلا گیا۔ اس وقت جبرائیل امین آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئے اور کہا کہ آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور اس نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی ہے:

 إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (سورہ مائدہ: آیت ۵۱-۵۵)۔

اس وقت آنحضرت ﷺ اٹھے اور فرمایا: "اے گروہ مسلمین! آج کے دن تم میں کس نے ایسا نیک کام کیا ہے کہ خدا نے اسے اپنا ولی مقرر کیا ہے؟” صحابہ نے عرض کیا: ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا، البتہ آپ کے چچا زاد بھائی اور داماد علی علیہ السلام نے حالت رکوع میں سائل کو انگوٹھی دی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جنت کے وہ بالا خانے علی کے لیے واجب ہو گئے ہیں۔” پھر آپ نے صحابہ کے سامنے آیت ولایت کی تلاوت فرمائی۔

نزول آیت کے متعلق تیسری روایت: ابوذر غفاری کی گواہی

مناقب اور کشف الغمہ میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس چاہ زمزم کے منڈیر پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہ احادیث نبوی بیان کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس نے عمامہ کے ساتھ منہ ڈھانک رکھا تھا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ وہ شخص بھی کہتا کہ واقعی رسول خدا ﷺ نے یہ بات کہی تھی۔ ابن عباس کھڑے ہوئے اور آنے والے سے کہا: میں آپ کو خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ آپ کون ہیں؟

اس شخص نے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا: "لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ میں رسول خدا ﷺ کا بدری صحابی جندب بن جنادہ ابوذر غفاری ہوں۔

میں نے رسول خدا ﷺ سے اپنے ان کانوں سے سنا ہے اور اگر نہ سنا ہو تو خدا کرے میرے کان بہرے ہو جائیں اور وہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اگر نہ دیکھا ہو تو خدا کرے کہ میری آنکھیں اندھی ہو جائیں۔ میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا: ‘عَلِيٌّ قَائِدُ الْبَرَرَةِ وَقَاتِلُ الْكفَرَةِ مَنْصُورٌ مَنْ نَصَرَهُ مَخْذُولٌ مَنْ خَذَلَهُ’ (علی پرہیزگاروں کے رہبر ہیں، کافروں کے قاتل ہیں۔ جو اس کی مدد کرے گا، خدا اس کی مدد کرے گا اور جو اسے بے یار و مددگار چھوڑے گا، خدا اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے گا۔)”

ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں: "لوگو! میں نے ایک دن رسول خدا ﷺ کی اقتدا میں ظہر کی نماز پڑھی۔ ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اسے کچھ نہ دیا۔ سائل نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا: ‘خدایا! گواہ رہنا کہ میں نے مسجد رسول میں سوال کیا، لیکن مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا۔’ اس وقت حضرت علی علیہ السلام رکوع میں تھے۔

آپ نے اسے چھوٹی انگلی سے اشارہ کیا۔ آپ اس میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ سائل آیا اور انگوٹھی اتار کر چلا گیا۔ یہ سب کچھ رسول خدا ﷺ کے سامنے ہوا۔ پھر جب نبی اکرم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور دعا مانگی:

‘پروردگارا! میرے بھائی موسیٰ علیہ السلام نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ میرے سینے کو کشادہ کر اور میرے معاملات میرے لیے آسان فرما اور میری زبان کی گرہیں کھول دے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ میرے خاندان میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا۔ اس کے ذریعے سے میری کمر مضبوط فرما اور اسے میرے معاملات میں شریک فرما۔

‘ خدایا! تو نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی تھی اور اس سے قرآنی الفاظ میں یہ کہا تھا: ‘ہم تیرے بھائی سے تیرے بازو کو مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لیے حکومت قرار دیں گے۔ تمہارے دشمن تمہارے قریب نہ آسکیں گے۔’ خدایا! میں محمد تیرا نبی اور صفی ہوں۔ پروردگارا! میرے لیے میرا سینہ کشادہ کردے، میرے معاملات میرے لیے آسان کردے اور میرے خاندان میں سے علی کو میرا وزیر بنا، اس کے ذریعے سے میری کمر کو مضبوط فرما۔'”

جیسے ہی رسول خدا ﷺ کی یہ دعا مکمل ہوئی، آپ پر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا: "یا محمد! آپ یہ پڑھیں: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (سورہ مائدہ: آیت 55).”

مفسرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ آیت امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی اور یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپ نے سائل کو انگوٹھی عطا کی تھی۔ شان نزول میں اگرچہ اختلاف پایا جاتا ہے لیکن مضمون ایک ہے اور وہ فضیلت امام علی کا اثبات ہے۔

سورہ "ہل اتی” (الدھر) کا نزول: فضیلت امام علی اور اہل بیت کا ایثار

شیخ صدوق نے امالی میں اپنی سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے۔ انھوں نے اپنے والد ماجد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سورہ "ہل اتی” (الدھر) کی آیت وَيُوفُونَ بِالنَّذْرِ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے فرمایا:

ایک دفعہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام بیمار ہوئے۔ اس وقت وہ دونوں معصوم تھے۔ رسول خدا ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ دو اور افراد بھی تھے۔ ان دو میں سے ایک نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: "اے ابوالحسن! اگر آپ اپنے شہزادوں کی خاطر خدا کے حضور منت مان لیں تو اللہ تعالیٰ انھیں شفا یاب کر دے گا۔

” حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "میں خدا کے لیے تین روزوں کی منت مانتا ہوں کہ اگر میرے دونوں بچے شفایاب ہو گئے تو میں تین روزے رکھوں گا۔” حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے بھی اپنے شوہر کی طرح تین روزوں کی منت مانی۔ والدین کو دیکھ کر دونوں بچوں نے بھی اپنی شفایابی کے لیے تین روزوں کی نیت کر لی۔ جب گھر کے تمام افراد نے روزہ کی نیت کی تو اس گھر کی خادمہ بی بی فضہ نے بھی تین روزوں کی منت مان لی۔ اللہ تعالیٰ نے بچوں کو صحت عطا کی۔ آل محمد ﷺ نے منت کو پورا کرنے کے لیے روزہ رکھا۔

ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ حضرت علی علیہ السلام ایک یہودی ہمسائے کے پاس گئے جس کا نام شمعون تھا اور وہ اون کا کاروبار کرتا تھا۔ آپ نے یہودی سے فرمایا: "تم مجھے کچھ اون دے دو، رسول خدا ﷺ کی صاحبزادی تین صاع جو کے عوض اسے کاتے گی۔” اس نے کچھ اون اور جو آپ کے سپرد کیے۔ حضرت علی علیہ السلام وہ اون اور جو لے کر اپنی زوجہ کے پاس آئے۔

بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے پہلے دن ایک تہائی اون کا تا اور اس کے عوض ایک صاع جو لیے، ان کو پیس کر آٹا بنایا اور اس سے پانچ روٹیاں تیار کیں۔ گھر کے ہر فرد کے لیے ایک روٹی تیار کی گئی۔ شام ہوئی، حضرت علی علیہ السلام نماز مغرب کے لیے مسجد نبوی گئے اور نماز سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے۔ تمام افراد خانہ دسترخوان پر بیٹھے۔ ابھی آپ نے پہلا لقمہ توڑا ہی تھا کہ دروازے پر ایک شخص نے آواز دی: "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ مُحَمَّدٍ! میں ایک مسلمان مسکین ہوں، مجھے طعام کھلاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں جنت کے دسترخوان کا کھانا نصیب کرے گا۔”

حضرت علی علیہ السلام نے وہ لقمہ کھائے بغیر رکھ دیا اور آپ نے اپنی زوجہ محترمہ سے فرمایا:

يَا فَاطِمُ ذَاتَ الْمَجْدِ وَالْيَقِينِ  يَا بِنْتَ خَيْرِ النَّاسِ أَجْمَعِينَ

ان اشعار میں آپ نے حضرت سیدہ کو مساکین نوازی کی ترغیب دی تھی۔ حضرت سیدہ نے جواب میں کہا:

أَمْرُكَ سَمْعٌ يَا ابْنَ الْهُمَامِ وَطَاعَةٌ  مَا أَنَا مِنْ لُؤْمٍ وَلَا وَضَاعَةٍ

ان اشعار میں حضرت سیدہ نے اپنی مساکین نوازی کا تذکرہ کیا۔ الغرض، حضرت علی علیہ السلام نے اپنی روٹی اٹھائی۔ حضرت سیدہ نے اپنے حصہ کی روٹی اس میں شامل کی اور حسنین کریمین علیہما السلام نے اپنے اپنے حصہ کی روٹیاں اس میں شامل کیں اور حضرت فضہ نے بھی اپنی روٹی ان میں شامل کی۔ حضرت علی علیہ السلام نے وہ پانچوں روٹیاں مسکین کے سپرد کیں اور کچھ کھائے بغیر سو گئے۔ صبح ہوئی تو خالی پیٹ سب نے روزہ رکھا۔ حضرت سیدہ نے اون کی ایک اور تہائی کو کاتا اور ایک صاع جو لیے، انھیں پیس کر آٹا بنایا اور پانچ روٹیاں تیار کیں۔

حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم ﷺ سے ملنے اور دیگر کاموں کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد گھر آئے اور دسترخوان بچھایا گیا۔ افراد خانہ دسترخوان کے گرد بیٹھے۔ ابھی حضرت علی علیہ السلام نے پہلا لقمہ ہی توڑا تھا کہ دروازے پر کسی نے آواز دی: "اے اہل بیت محمد ﷺ! تم پر سلام ہو۔ میں ایک مسلمان یتیم ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ۔ اس کے عوض خدا تمہیں جنت کے دسترخوان پر کھانا کھلائے گا۔” حضرت علی علیہ السلام نے وہ لقمہ رکھ دیا اور اپنی زوجہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

فَاطِمُ بِنْتُ السَّيِّدِ الْكَرِيمِ  قَدْ جَاءَنَا بِذَا الْيَتِيمِ

سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا نے شوہر کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے جواب دیا:

فَسَوْفَ أُعْطِيهِ وَلَا أُبَالِي  وَأُوثِرُ اللَّهَ عَلَى جِبَالِي  أُمُوتُ جِيَاعًا وَهُمْ أَشْبَالِي

اس دن بھی حضرت علی علیہ السلام نے پانچوں روٹیاں اٹھا کر یتیم کے حوالے کر دیں اور افراد خانہ کچھ کھائے بغیر رہ گئے۔

الغرض، تیسرا دن ہوا۔ سب نے کچھ کھائے بغیر روزہ رکھا۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے اون کا تیسرا حصہ کاتا، اس کے عوض ایک صاع جو لیے، آٹا بنایا، پھر روٹیاں بنا کر دسترخوان پر رکھ دیں۔ حضرت علی علیہ السلام نماز مغرب پڑھ کر گھر آئے اور آپ نے لقمہ توڑا ہی تھا کہ دروازے پر کسی نے آواز دی: "اے اہل بیت محمد ﷺ! تم پر سلام ہو۔ آپ لوگ ہمیں قیدی بناتے ہیں اور ہمیں کھانا نہیں کھلاتے؟!!” حضرت علی علیہ السلام نے لقمہ واپس رکھا اور حضرت سیدہ سے خطاب کیا:

فَاطِمُ يَا بِنْتَ النَّبِيِّ أَحْمَدَ  بِنْتُ نَبِيٍّ سَيِّدٍ مُسَوَّدِ

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب میں کہا:

لَمْ يَبْقَ مِمَّا كَانَ غَيْرُ صَاعٍ  قَدْ دَبَّرَتْ كَفِّي مَعَ الذِّرَاعِ

پھر سیدہ نے اپنی سعادت کا تذکرہ کیا۔ اب کی بار بھی حضرت علی علیہ السلام نے دسترخوان پر موجود پانچوں روٹیاں اٹھا کر سائل کے حوالے کیں اور آل محمد ﷺ نے وہ شب بھی بھوک کی حالت میں بسر کی۔

پھر حضرت علی علیہ السلام، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کا ہاتھ تھامے رسول خدا ﷺ کے پاس گئے۔ بھوک کی وجہ سے ان کی حالت کافی نازک ہو چکی تھی اور دونوں معصوم بچے چوزوں کی طرح کانپ رہے تھے۔ جب رسول خدا ﷺ نے یہ حالت دیکھی تو آپ نے فرمایا: "اے ابوالحسن! بچوں کی یہ حالت کیوں بنی ہوئی ہے؟” حضرت علی علیہ السلام نے سارا واقعہ بیان کیا۔ رسول خدا ﷺ حجرہ سے اپنی صاحبزادی کے پاس تشریف لائے۔

اس وقت حضرت سیدہ محراب عبادت میں مصروف تھیں اور مسلسل بھوک کی وجہ سے آپ کا پیٹ پشت سے لگا ہوا تھا اور بی بی کی آنکھیں اندر کو دھنس چکی تھیں۔ رسول خدا ﷺ نے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا: "ہائے خدا کی پناہ! تم لوگ تین دن سے بھوکے ہو۔” اس وقت جبرائیل امین نازل ہوئے اور کہا: "یا رسول اللہ! اللہ نے جو کچھ آپ کی اہل بیت کی شان میں بیان کیا ہے، آپ اسے وصول کریں۔” اس وقت جبرائیل امین نے هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ سے لے کر إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا تک کی آیات آنحضرت ﷺ کو پڑھ کر سنائیں۔

حسن بن مہران کی روایت میں بیان ہوا ہے کہ نبی اکرم ﷺ بڑی تیزی سے اپنی صاحبزادی کے گھر تشریف لائے، انھیں جمع کیا اور ان کی حالت دیکھ کر رونے لگے اور فرمانے لگے: "تم کتنے دنوں سے بھوکے ہو؟” اس وقت جبرائیل امین یہ آیات لے کر نازل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: يُوفُونَ بِالنَّذْرِ یعنی وہ اپنی نذر پوری کرتے ہیں، مراد حضرت علی، فاطمہ، حسن، حسین علیہم السلام اور ان کی کنیز حضرت فضہ ہیں۔

 وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا

 (سورہ دہر: آیت 7-8) یعنی اگرچہ انھیں خود بھی طعام کی ضرورت ہوتی ہے، پھر بھی ایثار سے کام لے کر مسلمان مسکین و یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کھانا کھلاتے وقت ان کی نیت یہ ہوتی ہے: إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (سورہ دہر: آیت 9) "ہم تمھیں اللہ کی رضا کی خاطر کھانا کھلاتے ہیں، ہم تم سے کوئی بدلہ اور کسی طرح کا شکریہ کے خواہش مند نہیں ہیں۔” یہ الفاظ خاندان مصطفی ﷺ نے اپنی زبان سے نہیں کہے تھے، اللہ نے ان کے ضمائر پر نظر کی اور اس کی ترجمانی فرمائی۔

علامہ مجلسی تحریر کرتے ہیں کہ سورہ "ہل اتی” کے شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس پر تمام محدثین و مفسرین کا اتفاق ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جیسے ایثار کی توقع خاندان مصطفی ﷺ کے علاوہ اور کسی گھرانے سے نہیں کی جا سکتی۔ یہ سورہ مبارکہ آل محمد ﷺ کی عظمت و جلالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اعتراضات کے مدلل جوابات اور فضیلت امام علی کا تسلسل

کچھ لوگ اس فضیلت امام علی کے واقعے پر از راہ تعصب یا ناواقفیت یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کوئی انسان تین دن تک مسلسل بھوکا کیسے رہ سکتا ہے؟

اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی خلاف عقل بات نہیں ہے۔ اولیاء اللہ اور صاحبِ کرامات افراد کے لیے یہ بالکل ممکن ہے۔ کچھ تاریخی رسائل میں تو ہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ کچھ افراد نے چالیس دن کا مسلسل چلنے والا روزہ (چلتے روزے) رکھا اور اس دوران ان کے جسم میں نہ تو کھانا گیا اور نہ ہی انھوں نے پانی پیا، مگر اس کے باوجود وہ زندہ رہے۔

اہلِ ریاضت و عبادت تو حیران کن طریقے سے بھوک پیاس کا سامنا کرتے ہیں۔ کچھ اولیاء ایسے بھی ہیں جنھوں نے پورے دن میں صرف ایک بادام پر گزارا کیا اور کئی برس تک ان کی یہی کیفیت رہی۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص زیادہ کھانے کا عادی ہو، اس کے لیے تین دن بھوکا رہنا مشکل ہوتا ہے اور جو شخص ریاضت اور عبادت کا عادی ہو، اس کے لیے بھوک برداشت کرنا ممکن ہوتا ہے۔ مزید برآں، یہ فضیلت امام علی اور ان کے خاندان کا ایک معجزہ بھی تھا جو ان کی روحانی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔

کچھ افراد، جنھیں آل محمد ﷺ کی فضیلت امام علی اور ان کے خاندان کی عظمت راس نہیں آتی، وہ اس مقام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بھلا یہ کیسی عبادت ہے کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنے چھوٹے معصوم بچوں کو بھوکا رکھ کر دوسروں کو کھانا کھلاتا رہے؟

ان لوگوں سے ہماری التماس ہے کہ اس چیز کو "ایثار” کہا جاتا ہے۔ ایثار وہ اعلیٰ ترین درجہ ہے جہاں انسان اپنی بنیادی ضروریات پر بھی دوسروں کو مقدم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی اہل ایثار کی تعریف کی ہے اور فرمایا ہے:

 وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (سورہ حشر: آیت 9)

"اور وہ ایثار سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ خود بھی سخت حاجت مند ہوتے ہیں۔” اگر ایثار مذموم ہوتا تو اللہ تعالیٰ آل محمد ﷺ کی شان میں سورہ "ہل اتی” کو کیوں نازل فرماتا؟ یہ فضیلت امام علی اور ان کے اہل بیت کا وہ ایثار ہے جو روز قیامت تک زندہ رہے گا۔ اور جب بھی کوئی مسلمان سورہ "ہل اتی” کی تلاوت کرے گا، تو اس کے سامنے آل محمد ﷺ کی وفائے عہد اور ایثار کی بے نظیر مثالیں سامنے آئیں گی، جو فضیلت امام علی کے اس پہلو کو ہمیشہ تازہ رکھیں گی۔

خلاصہ: ابدی سبق اور دائمی نمونہ

آیت ولایت اور سورہ "ہل اتی” (الدھر) کا نزول درحقیقت فضیلت امام علی کے ایک ایسے جامع اور ہمہ گیر پہلو کو اجاگر کرتا ہے جو ہر دور کے مسلمان کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ یہ واقعات واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ فضیلت امام علی کا مقام و مرتبہ محض جنگوں اور فتوحات تک محدود نہیں، بلکہ ان کی عبادت کی گہرائی، ان کا بے پناہ ایثار، ان کی بے مثال خدمت خلق اور ان کی محبت الٰہی ہی وہ بنیادیں ہیں

جن پر ان کی ولایت و امامت قائم ہے۔ فضیلت امام علی کا یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جو عبادت کے مقدس لمحات میں بھی انسانیت کی خدمت سے جڑا رہے اور اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کی ضروریات کو اہمیت دے۔ یہی فضیلت امام علی کا وہ ابدی پیغام ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مشعل راہ بنا رہے گا۔

 

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ واقعہ مباہلہ میں رسول اللہ نے اپنے ساتھ صرف چار افراد کو کیوں چنا؟

waqea mubahila,

واقعہ مباہلہ: تاریخ، فضائل اہل بیت اور قرآن کی روشنی میں مکمل جائزہ

واقعہ مباہلہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا روشن اور ناقابلِ تردید واقعہ ہے جو نہ صرف پیغمبر اسلام ﷺ کی رسالت کی سچائی پر مہر ثبت کرتا ہے بلکہ اہل بیت عصمت و طہارت کی فضیلت اور عظمت کو قرآن مجید کے الفاظ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیتا ہے۔

یہ واقعہ مباہلہ صرف ایک تاریخی بیان نہیں بلکہ ایمان و یقین کو مضبوط کرنے والا ایک عظیم الشان روحانی معجزہ ہے۔ اس مضمون میں ہم واقعہ مباہلہ کے پس منظر، واقعات، اور اس کے گہرے معنوی و علمی نکات پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ ہم اس عظیم واقعہ مباہلہ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ کس طرح یہ واقعہ ہمارے ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔

نجران کا تاریخی اور جغرافیائی تعارف

واقعہ مباہلہ کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے نجران کے علاقے اور اس کے لوگوں کو جاننا ضروری ہے۔ نجران موجودہ سعودی عرب کے جنوب میں یمن کی سرحد پر واقع ایک وادی کا نام ہے۔ یہ علاقہ تجارتی راستوں پر واقع ہونے کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ عیسائی مذہب کے پھیلاؤ کےنجران عرب میں عیسائیت کا ایک اہم مرکز بن گیا تھا۔

یہاں کے عیسائیوں کا تعلق بنی طور پر قبیلۂ بنی حارث بن کعب سے تھا اور وہ نسطوری عیسائی تھے۔ نجران میں ایک بڑی عیسائی آبادی تھی جس کے اپنے مذہبی رہنما تھے جن میں اسقف (بشپ) سب سے بڑا مذہبی عہدہ دار تھا۔ واقعہ مباہلہ سے پہلے نجران کے عیسائی اپنے علاقے میں مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ رہ رہے تھے۔

نجران کے عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث (تین خدا کا عقیدہ) پر تھا اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔ ان کا یہی عقیدہ بعد میں واقعہ مباہلہ کا مرکز بن گیا۔ نجران کی عیسائی برادری مذہبی طور پر منظم تھی اور ان کے پاس علمی و لوجسٹک وسائل موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا خط ان تک پہنچا تو انہوں نے اسے سنجیدگی سے لیا اور اس کا جواب دینے کے لیے ایک علمی وفد تیار کیا۔

پس منظر: نجران کے عیسائیوں کا رسول اللہ ﷺ کا خط

سن 10 ہجری کا واقعہ ہے، جو عامۃ الوفود کا سال بھی کہلاتا ہے۔ اس سال عرب کے مختلف قبائل کے وفود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی دعوت دینے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں خطوط بھیجے۔ انہی میں سے ایک خط نجران کے اسقف (مذہبی رہنما) ابو حارثہ بن علقمہ کے نام تھا۔ خط کا متن درج ذیل تھا:

"بسم الله ابراهيم و اسحاق ويعقوب. من محمد رسول الله إلى اسقف نجران واهل نجران. اما بعد! فاني ادعوكم الى ولاية الله من ولاية العباد، فان ابيتم فالجزية، وان ابيتم فقد آذنتم بالحرب والسلام.”

(ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے معبود کے نام سے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نجران کے اسقف اور اہل نجران کے نام۔ اگر تم اسلام قبول کر لو تو میں ابراہیم، اسحاق، یعقوب کے معبود کی حمد بجا لاؤں گا۔ اگر تمہیں یہ منظور نہ ہو تو پھر جزیہ ادا کرو اور اگر جزیہ بھی منظور نہ ہو تو تم سے جنگ کا اعلان کیا جاتا ہے۔)

اس خط میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کا ذکر اس لیے فرمایا کیونکہ عیسائی اور یہودی ان پیغمبروں کو مانتے تھے۔ اس طرح آپ ﷺ نے مشترکہ نقطہ سے بات شروع کی۔ خط کے تین واضح اختیارات تھے: اسلام قبول کرنا، یا جزیہ دے کر اسلامی ریاست کے تحفظ میں رہنا، یا پھر جنگ کے لیے تیار رہنا۔

نجران میں خط پہنچنے کا رد عمل

جب یہ خط اسقف ابو حارثہ کے پاس پہنچا تو وہ گھبرا گیا۔ اس نے فوری طور پر نجران کے دانشور اور معزز شخصیت شرحبیل بن وادعہ کو بلایا جو ایک تجربہ کار اور دوراندیش شخص تھا۔ اسقف نے خط شرحبیل کے سامنے رکھا۔ شرحبیل نے خط پڑھا تو اسقف نے ان سے مشورہ طلب کیا، "جمھاری کیا رائے ہے؟”

شرحبیل نے سوچ سمجھ کر جواب دیا، "آپ خود بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں ایک نبی بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ شخص وہی موعود نبی ہو۔ میں نبوت کے معاملے میں کوئی فیصلہ دینے سے قاصر ہوں، البتہ اگر کوئی دنیاوی معاملہ ہوتا تو میں آپ کو مشورہ بھی دیتا اور اس کے لیے جدوجہد بھی کرتا۔”

اسقف نے پھر نجران کے تمام بزرگان، قبائلی سرداروں، اور مذہبی رہنماؤں کو جمع کیا۔ انہیں خط سنایا گیا اور معاملہ پر غور کرنے کو کہا گیا۔ کئی دن تک بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ سب کی رائے تقریباً یہی تھی کہ مدینہ منورہ ایک وفد بھیجا جائے جو خود جا کر رسول اللہ ﷺ کے حالات، اخلاق، اور دعویٰ نبوت کا جائزہ لے۔ اگر وہ سچے نبی ہوئے تو ان کی بات مان لی جائے، ورنہ مناسب اقدام کیا جائے۔

چنانچہ ایک اعلیٰ وفد تیار ہوئی جس میں ستر دانشور شامل تھے۔ اس وفد میں شرحبیل بن وادعہ، عبداللہ بن شرحبیل اور جبار بن فیض جیسے معزز اور تجربہ کار افراد سرفہرست تھے۔ وفد کے ارکان کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ہر قسم کے سوالات کریں اور رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کا مکمل جائزہ لیں۔

مدینہ میں مناظرہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت پر بحث

نجران کا وفد مدینہ پہنچا اور مسجد نبوی میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی۔ انہوں نے نہایت احترام کے ساتھ اپنا تعارف کرایا اور بات چیت شروع کی۔ ان کا انداز علمی اور مباحثہ کی غرض سے تھا۔ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا، "اے ابوالقاسم! آپ حضرت عیسیٰ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ وہ کون ہیں؟”

یہ سوال درحقیقت اسلام اور عیسائیت کے بنیادی اختلاف پر تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، "تم یہاں ٹھہرو، کل میں تمہیں اس کے بارے میں وہ جواب دوں گا جو میرے رب کی طرف سے آئے گا۔”

آپ ﷺ کا یہ جواب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے تھے بلکہ وحی الٰہی کا انتظار فرماتے تھے۔ اگلے دن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ پر سورہ آل عمران کی یہ آیت نازل فرمائی:

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (آل عمران: 59)

(بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر اس سے کہا ‘ہو جا’ تو وہ ہو گیا۔)

یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کو حضرت آدم علیہ السلام کے بغیر ماں باپ کے پیدا ہونے کی مانند قرار دے رہی تھی۔ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کا بغیر ماں باپ کے پیدا ہونا ان کی الوہیت کی دلیل نہیں بلکہ خدا کی قدرت کی نشانی ہے، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا بھی ان کی بندگی کی طرف اشارہ تھا نہ کہ الوہیت کی طرف۔ یہ ایک نہایت منطقی اور مدلل جواب تھا۔

لیکن عیسائیوں نے ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا اور بات نہ مانی۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام معجزوں کے ساتھ آئے، مردوں کو زندہ کرتے تھے، اور پیدائشی اندھوں کو بینا کرتے تھے، اس لیے وہ عام انسان نہیں ہو سکتے۔ ان کے اصرار اور تکرار پر اللہ تعالیٰ نے واقعہ مباہلہ کے لیے فیصلہ کن آیت نازل فرمائی:

 فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (آل عمران: 61)

(پس جو شخص اس علم کے آجانے کے بعد بھی تم سے جھگڑا کرے تو کہہ دو کہ آؤ ہم بلا لیں اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو، اور اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور اپنے نفسوں کو اور تم اپنے نفسوں کو، پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیں۔)

مباہلہ کا مطلب ہے دعا کے ذریعے اللہ سے فیصلہ مانگنا کہ وہ جھوٹے پر لعنت اور عذاب نازل فرما دے۔ یہ ایک ایسا طریقہ تھا جس میں براہ راست خدا کی عدالت میں فیصلہ مانگا جا رہا تھا۔

یوم المباہلہ: تاریخ ساز دن

24 ذی الحجہ 10 ہجری کو رسول اللہ ﷺ نے عیسائی وفد سے کہا، "کل ہم مباہلہ کے لیے ملتے ہیں۔” یہ فیصلہ سن کر دونوں طرف کے لوگ انتظار میں تھے کہ دیکھیں کہ واقعہ مباہلہ میں کیا ہوتا ہے۔

صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھ صرف چار افراد کو لیا۔ یہ انتخاب بذات خود ایک معجزہ تھا۔ آپ ﷺ نے:

 

    1. اپنے بیٹے: حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو ساتھ لیا۔ (یہ أَبْنَاءَنَا کی عملی تفسیر تھی)۔

    1. اپنی عورت: اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو ساتھ لیا۔ (یہ نِسَاءَنَا کی عملی تفسیر تھی)۔

    1. اپنا نفس: اپنے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو ساتھ لیا۔ (یہ أَنفُسَنَا کی عملی تفسیر تھی)۔

روایات میں ہے کہ آپ ﷺ حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا آپ کے پیچھے چل رہی تھیں، اور حسنین کریمین آپ کے آگے آگے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، "جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔”

اس منظر کو دیکھنے والے صحابہ کرام حیران تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے صرف ان چار ہستیوں کو ہی کیوں منتخب فرمایا۔ اس سوال کا جواب بعد میں تاریخ نے خود دے دیا۔

عیسائیوں کی ہیبت اور شکست فاش

جب نجران کے عیسائیوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اہل بیت کے ساتھ اس یقین و اعتماد کے ساتھ آ رہے ہیں، ان کے چہروں پر نورانیت اور وقار چھایا ہوا ہے، تو وہ سہم گئے۔ ان کے چہرے فق ہو گئے۔ ان کا سردار شرحبیل بن وادعہ اپنے ساتھیوں سے بولا، "خدا کی قسم! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ شخص خدا سے مانگے کہ پہاڑ ہلا دیا جائے تو پہاڑ ہل جائے۔ اگر تم نے ان سے مباہلہ کیا تو ہم میں سے ایک بھی زندہ نہ بچے گا اور ساری دنیا کے عیسائی ہلاک ہو جائیں گے۔”

اس پر وفد کے دیگر ارکان نے پوچھا، "تو پھر تمہاری رائے کیا ہے؟”
شرحبیل نے کہا، "میری رائے یہ ہے کہ ہم ان سے مباہلہ نہ کریں بلکہ صلح کر لیں۔”

وفد نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ مباہلہ نہیں کریں گے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معافی مانگی۔ انہوں نے کہا، "اے ابوالقاسم! ہم آپ کے ساتھ صلح کر لیتے ہیں۔” چنانچہ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت وہ جزیہ ادا کرنے پر راضی ہو گئے۔ اس طرح واقعہ مباہلہ میں بغیر کسی بددعا کے ہی اسلام کی سچائی ظاہر ہو گئی۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، "خدا کی قسم! اگر وہ مباہلہ کرتے تو یہ میدان ان کی لاشوں سے پٹ جاتا اور تمام عیسائیوں پر آسمانی عذاب نازل ہو جاتا۔”

واقعہ مباہلہ کے بعد کے واقعات

واقعہ مباہلہ کے بعد نجران کے عیسائیوں نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن وہ جزیہ دے کر اسلامی ریاست کے تحفظ میں آ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ فرمایا جس میں انہیں مذہبی آزادی دی گئی۔ بعد میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں انہیں مدینہ سے نجران منتقل کر دیا گیا کیونکہ آپ کو خدشہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان رہنے سے ان کے عقائد مسلمانوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

یہ واقعہ مباہلہ درحقیقت ایک طرف تو رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی سچائی کی واضح دلیل تھا، تو دوسری طرف یہ اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت کے اعلان کا دن تھا۔

واقعہ مباہلہ سے ثابت ہونے والی فضیلتیں

یہ واقعہ مباہلہ درحقیقت اہل بیت علیہم السلام کی عظمت کو ثابت کرنے والا ایک زندہ معجزہ ہے۔ اس سے متعدد فضیلتیں ثابت ہوتی ہیں:

1. حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت: نفس رسول ﷺ
آیت مباہلہ میں لفظ أَنفُسَنَا (ہمارے نفس) استعمال ہوا ہے۔ تمام اہل تفسیر اور مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس لفظ کے مصداق حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی اور مرد کو اپنے ساتھ نہیں بلایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے نفس ہیں۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ تمام مخلوق سے افضل ہیں، اسی طرح آپ کا نفس بھی تمام لوگوں سے افضل ہوگا۔ یہ حضرت علی علیہ السلام کی دیگر صحابہ پر فضیلت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

امام رضا علیہ السلام نے خلیفہ مامون الرشید سے فرمایا تھا، "آیت مباہلہ امیرالمؤمنین کی سب سے بڑی فضیلت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنا نفس قرار دیا۔”

2. حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی فضیلت
لفظ نِسَاءَنَا (ہماری عورتیں) جمع ہونے کے باوجود اس کی مصداق صرف اور صرف سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کسی دوسری بیوی کو اس موقع پر ساتھ نہیں لیا، حالانکہ وہ موجود تھیں۔ یہ انتخاب سیدہ فاطمہ کی عظمت کی واضح دلیل ہے۔

3. امام حسن و امام حسین علیہما السلام کی فضیلت
لفظ أَبْنَاءَنَا (ہمارے بیٹے) کے مصداق امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں:

    • بیٹی کی اولاد بھی حقیقی اولاد ہوتی ہے۔

    • یہ دونوں نواسہ رسول ﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے بیٹے بھی ہیں۔

4. اہل بیت علیہم السلام کا انتخاب: معیارِ تقویٰ و افضلیت
رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچاؤں، بھائیوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر صرف ان چار ہستیوں کو منتخب کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہی وہ ہستیاں تھیں جو تقویٰ، طہارت اور قرب الٰہی میں سب سے بلند مقام رکھتی تھیں۔ آپ ﷺ کی ان سے محبت درحقیقت خدا کی طرف سے تھی۔ یہ انتخاب خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ چاروں شخصیات تمام کائنات میں خدا کے نزدیک سب سے محبوب اور افضل ہیں۔

علماء امت کی آراء

واقعہ مباہلہ پر امت کے بڑے بڑے علماء اور مفسرین نے لکھا ہے۔

    • علامہ مجلسی اپنی شہرہ آفاق کتاب "بحار الانوار” میں لکھتے ہیں کہ لفظ ‘انفسنا’ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور اس پر تاریخی شواہد قائم ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ فضیلت ایسی ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔

    • امام فخرالدین رازی اپنی کتاب ‘اربعین’ میں لکھتے ہیں کہ شیعہ اس آیت سے حضرت علی کی افضلیت پر استدلال کرتے ہیں اور یہ استدلال درست ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "نَفْسُ عَلِيٍّ بَعَيْنِهِ نَفْسُ مُحَمَّدٍ” (علی بلاشبہ محمد کا نفس ہیں)۔

    • ابن حجر عسقلانی نے ‘الصواعق المحرقہ’ میں لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن اپنے حق میں یہ دلیل پیش کی تھی کہ "کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی اور کو اپنا نفس قرار دیا تھا؟” حاضرین نے کہا، "نہیں۔”

    • طبری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ ‘أبناءنا’ سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں۔

    • زمخشری اپنی تفسیر ‘الکشاف’ میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت ان چار ہستیوں کی فضیلت پر واضح دلیل ہے۔

واقعہ مباہلہ کے مختلف روایتیں

واقعہ مباہلہ کے بارے میں مختلف روایتیں ملتی ہیں جن میں سے بعض میں کچھ اضافی تفصیلات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق جب نجران کا وفد آیا تو ان کے تین بااثر افراد عاقب، حارث اور اسقف میرود مدینہ کے پاس گئے اور یہودیوں کو آواز دے کر کہا: "اے بندروں اور خنزیر کی شکل میں مسخ ہونے والو! یہ شخص تمہارے درمیان موجود ہے اور تم پر غلبہ حاصل کر چکا ہے۔ تم گھر سے نکل کر ہمارے پاس آؤ۔”

چنانچہ منصور یہودی اور کعب بن اشرف یہودی ان کے پاس آئے اور کہا کہ کل صبح تم ہمارے ساتھ مسجد نبوی میں چل کر ہم ان سے کچھ سوال کریں گے۔ اگلے دن جب رسول اللہ ﷺ نماز فجر سے فارغ ہوئے تو اہل نجران آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ انہوں نے حضرت موسیٰ، حضرت یوسف، اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے والد کے بارے میں سوال کیا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے والد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ خاموش ہو گئے، اس پر یہی آیات نازل ہوئیں۔

یہ روایت اگرچہ بعض تفصیلات میں مختلف ہے لیکن مرکزی واقعہ مباہلہ کی تفصیلات یکساں ہیں۔

مباہلہ کی شرائط اور اس کا طریقہ کار

مباہلہ درحقیقت ایک مذہبی عمل ہے جس میں دونوں فریق خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ جھوٹے پر لعنت بھیجے۔ اس کے لیے چند شرائط ہیں:

    1. دونوں فریق کا اپنے موقف پر پختہ یقین ہونا۔

    1. اس کے لیے خاص وقت اور جگہ کا تعین۔

    1. دونوں طرف سے اپنے اپنے موقف کی صداقت کے لیے دعا کرنا۔

    1. یہ عقیدہ کہ خدا سچائی کو ظاہر کر دے گا۔

واقعہ مباہلہ میں رسول اللہ ﷺ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا اور اس کے لیے اپنے اہل بیت کو ساتھ لیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ہستیاں دین کے معاملے میں سب سے معتبر تھیں۔

واقعہ مباہلہ کا پیغام اور دور حاضر میں اس کی اہمیت

واقعہ مباہلہ ہمارے لیے بہت سے اہم پیغامات رکھتا ہے:

    1. سچائی کا اعتماد: سچے ایمان والے کو ہمیشہ اپنے موقف پر اعتماد ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے بلا جھجھک مباہلہ کی دعوت دی۔

    1. علمی مکالمہ: پہلے دلیل و منطق سے بات سمجھائی گئی، جب بات نہ بنی تو آخری حربہ استعمال کیا گیا۔

    1. اہل بیت کی اہمیت: اس واقعہ نے اہل بیت علیہم السلام کے مقام و مرتبہ کو ہمیشہ کے لیے واضح کر دیا۔

    1. بین المذاہب ہم آہنگی: اس واقعہ میں فتح مناظرہ اور مکالمے سے حاصل ہوئی، جنگ سے نہیں۔

دور حاضر میں جب بین المذاہب تعلقات اور مکالمہ اتنا اہم ہو گیا ہے، واقعہ مباہلہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم دلیل و منطق کے ساتھ بات کریں، اور اگر کوئی بات نہ مانے تو صبر و تحمل سے کام لیں۔

خلاصہ کلام

واقعہ مباہلہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ قرآن مجید کی ایک زندہ آیت ہے جو رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی سچائی اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کی بے مثال فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔

یہ واقعہ مباہلہ ہمارے لیے یہ سبق لے کر آیا کہ سچائی کے سامنے جھکنے میں ہی عقل مندی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ واقعہ امت مسلمہ کو یہ بھی بتاتا ہے کہ ہدایت اور نجات کے حقیقی راستے کو پہچاننے کے لیے اہل بیت رسول ﷺ کی پیروی ضروری ہے، کیونکہ انہیں ہی قرآن نے ‘نفس رسول’ اور ‘اولاد رسول’ کا درجہ دے کر ہمارے لیے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ واقعہ مباہلہ کی یہ روشن داستان ہمیشہ ایمان والوں کے دلوں کو نور اور یقین سے منور کرتی رہے گی۔

یہ واقعہ مباہلہ نہ صرف ماضی کا ایک واقعہ ہے بلکہ ہر دور کے مسلمان کے لیے روشنی کا مینار ہے جو اسے سچائی کے راستے پر گامزن رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس عظیم واقعہ مباہلہ سے سبق لیں اور اپنی زندگیوں میں اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور پیروی کو اپنائیں۔

(ڈس کلیمر)Disclaimer

  1. مذہبی نقطہ نظر: یہ مضمون اسلامی تاریخی منابع اور تفسیری کتب پر مبنی ہے۔ مختلف مسالک کے علماء کے درمیان واقعہ مباہلہ کی تفصیلات پر اگرچہ عام اتفاق ہے، تاہم بعض جزئیات کے حوالے سے اختلافی نقطہ نظر پائے جا سکتے ہیں۔

  2. تاریخی بیانات: یہاں پیش کردہ تمام واقعات اور اقوال معتبر اسلامی تاریخی مصادر سے اخذ کیے گئے ہیں۔ قاری سے گزارش ہے کہ مزید تحقیق کے لیے اصلی کتب کا مطالعہ فرمائیں۔

  3. علمی اختلاف: واقعہ مباہلہ میں اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت کے حوالے سے پیش کردہ نکات اسلامی علماء کی اکثریت کے متفقہ موقف پر مبنی ہیں، تاہم بعض علمی اختلافات موجود ہو سکتے ہیں۔

  4. غیر جانبداری: یہ مضمون معلوماتی مقصد کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں کسی بھی مسلک یا گروہ کی تنقید مقصود نہیں ہے۔

  5. مذہبی رہنمائی: واقعہ مباہلہ سے متعلق کسی بھی مذہبی مسئلے میں اپنے معتمد علماء سے رجوع کرنا ضروری ہے۔

  6. تصاویر: مضمون میں استعمال ہونے والی تمام تصاویر نمائشی مقصد کے لیے ہیں اور اصلی واقعہ کی حقیقی عکاسی نہیں کرتیں۔

  7. حقوق اشاعت: اس مضمون میں پیش کردہ مواد تعلیمی مقاصد کے لیے ہے۔ بحوالہ دیے بغیر کسی صورت میں اسے نقل کرنا ممنوع ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

علیؑ اور قرآن: ایک ناقابلِ انفکاک ربط – مکمل تحقیقی جائزہ

علیؑ اور قرآن

 علیؑ اور قرآن: ایک ناقابلِ انفکاک ربط

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اور یہ وہ عظیم کتاب ہے کہ باطل نہ آگے سے اس پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے سے۔ قرآن خدا کا کلام ہے جو انسانی خواہشات کی پیروی نہیں کرتا۔ رسول اللہﷺ کی مشہور حدیث ثقلین میں علیؑ اور قرآن کے درمیان گہرے تعلق کی واضح نشاندہی کی گئی ہے۔

قرآن اور عترت کا اتحاد

رسول خداﷺ نے ارشاد فرمایا:

 "إِنِّي تَارِكْ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَى الْحَوْضَ” 

 میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: اللہ کی کتاب اور اپنی عترت (اہل بیت)۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے۔

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ علیؑ اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قرآن عترت کے موافق ہے اور عترت قرآن کے زیر سایہ زندگی بسر کرتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ قرآن اپنے ساتھی کے متعلق خاموش رہے؟ یقیناً نہیں، کیونکہ قرآن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے۔

قرآن میں حضرت علیؑ کے فضائل

قرآن مجید میں علیؑ اور قرآن کے باہمی ربط کو واضح کرنے والی متعدد آیات موجود ہیں۔ حضرت علیؑ نے قرآن کے علوم و فنون، احکام اور خصائص کا تعارف کرایا ہے، جبکہ قرآن نے حضرت علیؑ کی شخصیت اور ان کے مکارم اخلاق کو بیان کیا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: "قرآن میں جہاں بہی ‘یا ایها الذین آمنوا’ کی آیت آئی ہے، ان میں علیؑ مومنین کا سالار قرار دیا گیا ہے۔ابن حجر "صواعق محرقہ” میں نقل کرتے ہیں کہ جب سورہ بینہ کی آیت :

"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ"

 نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے حضرت علیؑ سے فرمایا: "یا علی! وہ آپ اور آپ کے شیعہ ہیں۔”

آیت تطہیر:علیؑ اور قرآن کا خاص ربط

آیت تطہیر 

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا

 علیؑ اور قرآن کے درمیان ربط کی اہم دلیل ہے۔ اکثر مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ کی شان میں نازل ہوئی۔

واقعہ کساء اس کی واضح دلیل ہے جب رسول اللہﷺ نے ان چار شخصیات کو اپنی چادر کے نیچے لے کر یہ دعا فرمائی۔ حضرت ام سلمہؓ کے داخل ہونے کی درخواست پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: "تم اپنی جگہ پر بھلائی پر ہو”، جو ثابت کرتا ہے کہ آیت تطہیر کا مصداق صرف یہی پانچ شخصیات ہیں۔

قرآن کا اسلوب بیان اور علیؑ اور قرآن

قرآن کے اندازِ خطاب میں علیؑ اور قرآن کے ربط کی ایک اور دلیل ملتی ہے۔ سورہ احزاب میں جہاں ازواجِ مطہرات سے خطاب ہوا ہے، وہاں مؤنث کے صیغے استعمال ہوئے ہیں، لیکن آیت تطہیر میں مذکر کے صیغے "عنکم” اور "یطہرکم" استعمال ہوئے ہیں، جو ثابت کرتا ہے کہ یہ خطاب ازواج نہیں بلکہ اہل بیت علیہم السلام سے ہے۔

رسول اللہﷺ کا مسلسل چالیس دن تک حضرت علیؑ اور فاطمہؑ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آیت تطہیر پڑھنا، علیؑ اور قرآن کے درمیان گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔

علیؑ اور قرآن – ہدایت کے دو روشن چراغ

حضرت علیؑ عدیل القرآن ہیں اور وہ قرآن کے ساتھ قدم بہ قدم چلنے والے ہیں۔ آپ بھی حق کے داعی ہیں اور صراط مستقیم کے رہنما ہیں۔ علیؑ اور قرآن دونوں ہی حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں۔

قرآن میں علیؑ اور قرآن کے باہمی تعلق کو واضح کرنے والی دیگر آیات میں آیت مباہلہ، آیت ولایت، اور سورہ دہر کی آیات شامل ہیں، جو حضرت علیؑ کے فضائل و مناقب پر دلالت کرتی ہیں۔

 آیت مباہلہ: علیؑ اور قرآن کی عظمت کی دلیل

سورہ آل عمران کی آیت 61 میں واقعہ مباہلہ کا تذکرہ علیؑ اور قرآن کے گہرے تعلق کو واضح کرتا ہے۔ جب نجران کے عیسائیوں نے رسول اللہﷺ سے مباحثہ کیا تو اللہ نے حکم دیا کہ اپنے بیٹوں، عورتوں اور نفسوں کو لے آئیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت علیؑ کو اپنی جان، حضرت فاطمہؑ کو اپنی عورتوں، اور حضرت امام حسنؑ و حسینؑ کو اپنے بیٹوں کی نمایندگی پر مامور فرمایا۔

یہ واقعہ علیؑ اور قرآن کے درمیان روحانی ربط کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت علیؑ کو "نفس رسول” کا درجہ دینا قرآن کی اس آیت کی عملی تفسیر ہے۔ مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ "انفسنا” سے مراد حضرت علیؑ ہیں، جو علیؑ اور قرآن کے مقدس رشتے کو مزید مضبوط کرتا ہے۔

 آیت ولایت: علیؑ اور قرآن کے مالی و روحانی تعلق کا اظہار

سورہ مائدہ کی آیت 55:

 "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ” 

علیؑ اور قرآن کے تعلق کی اہم ترین آیات میں سے ہے۔ یہ آیت حضرت علیؑ کی زکوۃ دینے کی واقعہ کے موقع پر نازل ہوئی جب آپ نے نماز کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دیدی۔

اس آیت میں علیؑ اور قرآن کا ربط اس طرح واضح ہوتا ہے کہ اللہ اور رسول کے بعد ولایت کا درجہ حضرت علیؑ کو دیا گیا۔ یہ آیت علیؑ اور قرآن کے درمیان روحانی اور عملی ہم آہنگی کو ظاہر کرتی ہے۔ متعدد سنی و شیعہ مصادر میں اس آیت کی شان نزول حضرت علیؑ ہی بتائی گئی ہیں۔

 سورہ دہر: علیؑ اور قرآن کی ایثار کی تعلیم

سورہ الانسان (دہر) کی آیات 5 تا 22 میں اہل بیت کے ایثار کا تذکرہ ہے جو حضرت علیؑ، فاطمہؑ، حسنینؑ کے واقعہ سے متعلق ہیں۔ جب انہوں نے تین دن تک مسلسل روزہ رکھا اور افطاری کے وقت مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلایا۔

یہ سورت علیؑ اور قرآن کے اخلاقی پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ حضرت علیؑ کا ایثار قرآن کی تعلیمات کا عملی نمونہ تھا۔ اس سورت کا نزول علیؑ اور قرآن کے درمیان اخلاقی ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے۔

علیؑ اور قرآن کے علمی تعلق کا جائزہ

حضرت علیؑ قرآن کے بہترین مفسر تھے۔ آپ کا قول ہے: "اس قرآن سے پوچھو، لیکن یہ بول نہیں سکتا، میں تمہیں اس کے بارے میں بتاتا ہوں۔” یہ بیان علیؑ اور قرآن کے علمی ربط کو ظاہر کرتا ہے۔

حضرت علیؑ نے قرآن کی تفسیر و تشریح میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی تصنیف "مصحف فاطمہ” اگرچہ قرآن نہیں تھی، لیکن اس میں قرآن کی تفسیر و توضیح موجود تھی۔ علیؑ اور قرآن کا یہ علمی رشتہ بعد کی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنا۔

 حدیث ثقلین: علیؑ اور قرآن کے ابدی تعلق کی ضمانت

حدیث ثقلین میں علیؑ اور قرآن کے ہمیشہ ساتھ رہنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آ ملیں۔” یہ حدیث علیؑ اور قرآن کے ابدی تعلق کی واضح دلیل ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ علیؑ اور قرآن کا تعلق محض تاریخی نہیں بلکہ دائمی ہے۔ ہر دور میں قرآن کی صحیح تفسیر و تشریح کے لیے اہل بیت کی رہنمائی ضروری ہے۔ علیؑ اور قرآن کا یہ رشتہ قیامت تک قائم رہے گا۔

علیؑ اور قرآن کے عملی پہلو

حضرت علیؑ کی سیرت قرآن کی عملی تفسیر تھی۔ آپ کے عدل، سخاوت، علم اور شجاعت کے واقعات قرآن کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہیں۔ علیؑ اور قرآن کا یہ عملی تعلق مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔

حضرت علیؑ کے خطبات، احکام اور فیصلے قرآن کی روشنی میں تھے۔ "نہج البلاغہ” میں علیؑ اور قرآن کے فکری ہم آہنگی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ آپ کی زندگی قرآن کی عملی تفسیر تھی۔

علیؑ اور قرآن کے روحانی پہلو

علیؑ اور قرآن کا تعلق محض ظاہری نہیں بلکہ گہرا روحانی تعلق ہے۔ حضرت علیؑ قرآن کے باطنی علوم کے امین تھے۔ آپ کا قول ہے: قرآن کے ظاہر اور باطن ہیں، اور باطن کی سات تہیں ہیں۔ "

یہ روحانی ربط علیؑ اور قرآن کے تعلق کا اہم پہلو ہے۔ حضرت علیؑ قرآن کے باطنی علوم کو سمجھنے والے تھے۔ علیؑ اور قرآن کا یہ روحانی تعلق صوفیا و عرفا کے لیے ہدایت کا سرچشمہ بنا۔

تاریخی شواہد: علیؑ اور قرآن کا باہمی تعلق

تاریخی مصادر میں علیؑ اور قرآن کے تعلق کے متعدد شواہد ملتے ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ نے حضرت علیؑ کو بتوں کو توڑنے کا حکم دیا، جبکہ آپ نے ان آیات کی تلاوت کی جن میں بت پرستی کی مذمت کی گئی تھی۔

غزوات میں حضرت علیؑ کی شرکت اور قرآن کی آیات کا نزول علیؑ اور قرآن کے تاریخی تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ بدر، احد، خندق اور خیبر کے غزوات میں آپ کی شجاعت پر قرآن کی آیات نازل ہوئیں۔

علمی مصادر میں علیؑ اور قرآن کا تذکرہ

علمی مصادر میں علیؑ اور قرآن کے تعلق پر بڑی مقدار میں مواد موجود ہے۔ شیعہ مصادر کے علاوہ سنی مصادر جیسے صحاح ستہ، مسانید اور تفاسیر میں علی اور قرآن سے متعلق روایات موجود ہیں۔

امام طبری، امام ابن کثیر، امام سیوطی اور دیگر مفسرین نے اپنی تفاسیر میں علی اور قرآن سے متعلق آیات کی شان نزول بیان کی ہے۔ یہ علمی مصادر علی اور قرآن کے تعلق کی مستند شہادت ہیں۔

 معاصر دور میں علی اور قرآن کی اہمیت

معاصر دور میں علی اور قرآن کا تعلق اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ آج جب قرآن کی مختلف تفسیریں پیش کی جا رہی ہیں، علی اور قرآن کا تعلق صحیح تفسیر تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

حضرت علیؑ کی تفسیری روایت کو سمجھنا آج کے مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ علی اور قرآن کے فکری رشتے کو سمجھنے سے ہی قرآن کی صحیح تفہیم ممکن ہے۔

علی اور قرآن: اجتماعی زندگی کے لیے رہنمائی

علی اور قرآن کا تعلق محض فردی نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ حضرت علیؑ کے دور حکومت میں قرآن کے احکام کی عملی تطبیق نے اسلامی معاشرے کی تشکیل کی۔

عدل اجتماعی، اقتصادی انصاف، اور سماجی مساوات کے میدان میں علی اور قرآن کے تعلیمات آج بھی قابل عمل ہیں۔ علی اور قرآن کی مشترکہ تعلیمات اسلامی معاشرے کی تشکیل نو کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہیں۔

 اختتامیہ: علی اور قرآن کا دائمی رشتہ

علی اور قرآن کا رشتہ ایک دائمی اور ناقابل تقسیم رشتہ ہے۔ یہ رشتہ حدیث ثقلین میں بیان ہوا اور قرآن کی متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا۔ علی اور قرآن کا یہ تعلق مسلمانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔

آج بھی علی اور قرآن کے باہمی تعلق کو سمجھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ یہ تعلق نہ صرف تاریخی حقیقت ہے بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جو قیامت تک مسلمانوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ علی اور قرآن کے مقدس رشتے کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہی حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے۔

علی اور قرآن کے درمیان یہ روحانی رشتہ ہمیں راہِ حق پر گامزن رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ علی اور قرآن کے مشترکہ تعلیمات کو اپنائیں گے اور ان کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سنواریں گے۔

ڈسکلیمر (Disclaimer)

یہ مضمون تاریخی، مذہبی اور علمی مصادر پر مبنی ہے۔ اس میں پیش کیے گئے نظریات اور تشریحات مصنف کی اپنی رائے پر مبنی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی معاملے میں حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے مستند مصادر سے براہ راست رجوع کریں۔

ماخذSources and References )

قرآن کریم:

  •  سورہ احزاب، آیت 33 (آیت تطہیر)
  •  سورہ آل عمران، آیت 61 (آیت مباہلہ)
  •  سورہ مائدہ، آیت 55 (آیت ولایت)
  •  سورہ الانسان، آیات 5-22 (سورہ دہر)

حدیث کے مصادر:

  • حدیث ثقلین: صحیح مسلم، سنن ترمذی، مسند احمد
  •  واقعہ کساء: صحیح مسلم، سنن ترمذی، مستدرک حاکم
  •  واقعہ مباہلہ: صحیح مسلم، سنن نسائی

تفسیری مصادر:

  •  تفسیر ابن کثیر
  •  تفسیر طبری
  •  تفسیر در المنثور (سیوطی)
  •  تفسیر المیزان (علامہ طباطبائی)

تاریخی مصادر:

  • -تاریخ طبری
  •  الكامل فی التاريخ (ابن اثیر)
  •  سیرة ابن ہشام

علمی مصادر:

  •  نہج البلاغہ (حضرت علیؑ کے خطبات)
  •  صواعق محرقہ (ابن حجر)
  •  الغدیر (علامہ امینی)

 معاصر مصادر:

– مجلہ "تراثنا” (مؤسسة آل البیت)
– "اهل البیت في القرآن” (علامہ حسین النوری)
– "شبہات حول القرآن” (ڈاکٹر محمد علی الصلابي)

نوٹ:

– تمام احادیث کی تخریج مستند مصادر سے کی گئی ہے
– تفسیری اقتباسات معتبر تفاسیر سے لیے گئے ہیں
– تاریخی واقعات کی تصدیق معتبر تاریخی کتب سے کی گئی ہے
– عربی عبارات کی ترجمانی معتبر علماء کے تراجم کے مطابق پیش کی گئی ہے

قارئین مزید تحقیق کے لیے درج ذیل مصادر سے رجوع کر سکتے ہیں:

– مکتبة نور (آن لائن اسلامی لائبریری)
– الموسوعة القرآنية (قطر فاؤنڈیشن)
– جامع الحديث (سوفٹ ویئر)

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

علیؑ اور فتح خیبر: ایمان کی طاقت کا عظیم مظہر

فتح خیبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سن 7 ہجری میں واقع ہونے والی جنگ خیبر درحقیقت اسلام کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ رسول اللہﷺ اس وقت حدیبیہ سے واپس تشریف لا چکے تھے، جہاں آپﷺ نے مشرکین مکہ کے ساتھ ایک صلح نامہ پر دستخط فرمائے تھے۔ مدینہ منورہ میں مختصر قیام کے بعد، آپﷺ نے ایک بڑے لشکر کے ہمراہ فتح خیبر کے عظیم مشن پر روانگی فرمائی۔ خیبر کا علاقہ مدینہ منورہ سے تقریباً 80 میل کے فاصلے پر واقع ایک انتہائی سرسبز و شاداب خطہ تھا، جو اپنے کھجوروں کے باغات اور مضبوط قلعوں کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔

یہودیوں کے لیے خیبر نہ صرف ایک رہائشی علاقہ تھا بلکہ ایک مضبوط فوجی اڈا بھی تھا، جہاں وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچتے تھے۔ اس خطے میں متعدد قلعے تعمیر کیے گئے تھے، جن میں سے ہر ایک اپنی منفرد دفاعی خصوصیات کا حامل تھا۔ ان قلعوں کی مضبوطی اور فطری دفاعی حصار نے خیبر کو ایک ناقابل تسخیر علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ یہودیوں نے انہی قلعوں میں پناہ لی تھی، جس کے بعد مسلمانوں نے پچیس دن تک ان کا محاصرہ کیے رکھا۔ یہ محاصرہ نہ صرف طاقت کا امتحان تھا بلکے صبر و استقامت کی بھی اعلیٰ مثال تھا۔

علمِ اسلام کا سوال اور علیؑ کے انتخاب کا مقدس لمحہ

محاصرے کے طویل دور کے دوران، جب فتح خیبر کا حصول مشکل نظر آنے لگا، تو رسول اللہﷺ نے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو پرچمِ اسلام عطا فرمایا۔ حضرت ابوبکر نے بڑی بہادری سے لڑائی کی، مگر اس روز فتح حاصل نہ ہو سکی۔ اگلے دن، رسول اللہﷺ نے حضرت عمر فاروق کو یہ اعزاز عطا فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے بھی بے مثال جرات کا مظاہرہ کیا، لیکن فتح خیبر اس روز بھی ممکن نہ ہو سکی۔

اس نازک صورتحال میں، رسول اللہﷺ نے ایک تاریخی اعلان فرمایا، جو تاریخ اسلام میں ہمیشہ کے لیے سنہری حروف سے لکھا گیا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
"کل میں یہ علم ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا سچا محب ہے، اور اللہ اور اس کا رسولﷺ اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ ہرگز میدان جنگ سے پیٹھ نہیں پھیرے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمادے۔”

یہ الفاظ سن کر تمام صحابہ کرامؓ ساری رات اس فکر میں گزارنے لگے کہ کل یہ عظیم اعزاز کس کے حصے میں آئے گا؟ ہر شخص کی خواہش تھی کہ یہ اعزاز اسے ملے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے الفاظ میں: "مجھے کبھی امارت کی اتنی تمنا نہیں ہوئی جتنی اس رات ہوئی تھی۔”

علیؑ کی بیماری اور رسول اللہﷺ کا معجزاتی علاج

اگلی صبح، جب پورا لشکر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپﷺ نے براہ راست حضرت علیؑ کا نام لیا۔ اس وقت حضرت علیؑ شدید بیمار تھے۔ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، جس کی وجہ سے انہیں صحیح سے دکھائی تک نہیں دے رہا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ، علیؑ تو آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔” رسول اللہﷺ نے فرمایا: "انہیں میرے پاس لاؤ۔”

حضرت علیؑ کو ایک خچر پر سوار کر کے رسول اللہﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپﷺ نے نرمی سے دریافت فرمایا: "اے علی، تمہیں کیا تکلیف ہے؟” حضرت علیؑ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ، میں آشوب چشم میں مبتلا ہوں، مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا، اور سر میں بھی شدید درد ہے۔” رسول اللہﷺ نے فرمایا: "اے علی، بیٹھ جاؤ اور اپنا سر میری گود میں رکھو۔”

حضرت علیؑ نے آپﷺ کے حکم کی تعمیل کی۔ رسول اللہﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں پر اپنا لعاب دہن ڈالا اور اسے حضرت علیؑ کی آنکھوں اور سر پر لگایا۔ یہ ایک معجزاتی لمحہ تھا۔ جیسے ہی رسول اللہﷺ کا لعاب دہن لگا، حضرت علیؑ کی آنکھیں کھل گئیں اور تمام تکلیف ایسے غائب ہوئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی: "خدایا، علیؑ کو گرمی اور سردی سے بچانا۔” یہ معجزہ فتح خیبر کی کامیابی کی پہلی شرط ثابت ہوا۔

میدانِ جنگ میں علیؑ کی غیر معمولی بہادری

رسول اللہﷺ نے حضرت علیؑ کو سفید رنگ کا پرچمِ اسلام عطا فرمایا اور انہیں ہدایت فرمائی: "اے علی، علم لو اور چلے جاؤ۔ جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ کی نصرت تمہارے ساتھ ہے اور مخالفین کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا ہے۔”

حضرت علیؑ علمِ اسلام لے کر قلعے کی طرف بڑھے۔ آپ کے پیچھے پورا اسلامی لشکر تھا۔ قلعے کے قریب پہنچ کر آپ نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑ دیا۔ ایک یہودی عالم نے قلعے سے آواز دی: "اے جوان، تم کون ہو؟” حضرت علیؑ نے فخر سے جواب دیا: "میں علی بن ابی طالب ہوں۔” یہودی عالم نے مڑ کر اپنی قوم سے کہا: "تم رات ہی سے مغلوب ہو چکے ہو۔”

اس کے بعد یہودیوں کا نامور بہادر جنگجو "مرحب” میدان میں آیا۔ اس نے رجز پڑھتے ہوئے اپنی طاقت کا ڈھنڈورا پیٹا۔ حضرت علیؑ نے اس کے جواب میں یہ تاریخی رجز پڑھا:
"میں وہ ہوں جسے اس کی ماں نے حیدر کے نام سے پکارا۔ میں جنگوں کا شیر ہوں۔ میں دشمنوں کے لیے تباہ کن آندھی ہوں۔ میں تم میں وسیع پیمانے پر قتل و خون ریزی کروں گا۔ میں اپنی تلوار سے کافروں کی گردنیں اڑاؤں گا۔”

حضرت علیؑ کے اس تعارف نے مرحب کے حواس پر سکتہ طاری کر دیا، کیونکہ اس کی دایا نے اسے بچپن میں ہی خبردار کیا تھا کہ کسی حیدر نامی شخص سے جنگ نہ کرنا۔ اس کے باوجود، حضرت علیؑ کے ساتھ ہونے والے تاریخی مقابلے میں، آپ نے ایک ہی وار میں مرحب کو شکست فاش دی۔ یہ وہ فیصلہ کن لمحہ تھا جس نے فتح خیبر کی راہ ہموار کی۔

قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑنے کا عظیم واقعہ

مرحب کی شکست کے بعد، یہودی فوج حواس باختہ ہو کر قلعے میں داخل ہو گئی اور ایک بھاری پتھر کے دروازے کو بند کر لیا۔ یہ دروازہ انتہائی مضبوط تھا اور اسے چالیس آدمی مل کر بھی نہ ہلا سکتے تھے۔ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب حضرت علیؑ نے اپنی غیر معمولی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دروازے کو اکھاڑ لیا۔

تاریخی روایات کے مطابق، حضرت علیؑ کے بائیں ہاتھ میں کمان تھی۔ آپ نے وہ کمان پھینک دی اور بائیں ہاتھ سے اس پتھر کے دروازے میں اس طرح جما دیا کہ وہ اکھڑ گیا۔ پھر آپ نے اس دروازے کو ایک ڈھال کی طرح استعمال کرتے ہوئے دشمن پر حملہ بول دیا۔ یہودی لشکر اس غیر متوقع حملے سے بالکل تتر بتر ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت علیؑ نے اس بھاری دروازے کو بائیں ہاتھ سے پیچھے کی طرف پھینکا، جو مسلمانوں کے سروں سے پرواز کرتا ہوا لشکر کے آخر میں جا گرا۔

ابن ابی الحدید نے اپنے قصیدہ میں اس عظیم کارنامے کو یوں خراج تحسین پیش کیا:
"اے وہ عظیم فاتح جس نے اس دروازے کو اکھاڑا تھا جسے چالیس آدمی مل کر بھی نہ ہلا سکتے تھے۔” یہ منظر فتح خیبر کا سب سے یادگار اور طاقتِ ایمانی کی سب سے بڑی علامت بنا، جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔

فتح کے بعد رسول اللہﷺ کی خصوصی دعائیں اور علیؑ کی فضیلت

فتح خیبر کے بعد، رسول اللہﷺ نے حضرت علیؑ کے فضائل میں انتہائی خصوصی ارشادات فرمائے۔ آپﷺ نے فرمایا:
"اے علی! اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے بارے میں وہی کہیں گے جو عیسائی عیسیٰؑ کے بارے میں کہتے ہیں، تو میں تمہارے ایسے فضائل بیان کرتا کہ تم جہاں سے گزرتے، لوگ تمہاری خاکِ قدم اور تمہارے وضو کا پانی شفا کے لیے اٹھاتے۔

لیکن تمہارے لیے اتنی بات کافی ہے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ تم میرے وارث ہو اور میں تمہارا وارث ہوں۔ تمہاری جنگ میری جنگ ہے اور تمہاری صلح میری صلح ہے۔ تمہارے شیعہ جنت میں نور کے سفید منبروں پر بیٹھے ہوں گے، ان کے چہرے میری طرف ہوں گے، میں ان کی شفاعت کروں گا اور وہ جنت میں میرے ہمسائے ہوں گے۔”

یہ ارشادات نہ صرف فتح خیبر میں حضرت علیؑ کے کردار کی عظمت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان کی شخصیت کے روحانی مقام کو بھی واضح کرتے ہیں۔

فتح خیبر کے تاریخی اثرات اور سبق

فتح خیبر محض ایک زمینی فتح نہیں تھی بلکہ اس کے گہرے تاریخی اور روحانی اثرات مرتب ہوئے۔ یہ فتح مسلمانوں کے لیے طاقت اور عزم کا ایک بڑا ماخذ ثابت ہوئی۔ اس فتح نے نہ صرف یہودیوں کی طاقت کو شکست دی بلکہ تمام مخالفین کے دل میں مسلمانوں کے لیے رعب پیدا کیا۔

فتح خیبر سے ہمیں متعدد اہم سبق ملتے ہیں: پہلا سبق یہ کہ ایمان کی طاقت مادی طاقت پر غالب آتی ہے۔ دوسرا سبق یہ کہ قیادت کے لیے صرف طاقت ہی کافی نہیں، بلکہ تقویٰ اور اللہ کی محبت ضروری ہے۔ تیسرا سبق یہ کہ صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے، کیونکہ آخرکار فتح ایمان والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ چوتھا سبق یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کے لیے غیر معمولی طرقے اختیار فرماتا ہے۔

نتیجہ

فتح خیبر کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے جو ہمیں ایمان، وفاداری، بہادری اور استقامت کی لازوال داستان سناتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف حضرت علیؑ کی شخصیت کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ رسول اللہﷺ کی قیادت اور تربیت کے معجز نما اثرات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ فتح خیبر ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حق اور باطل کی کشمکش میں ہمیشہ حق کی فتح ہوتی ہے، بشرطیکہ ایماندارانہ عمل، مضبوط یقین اور اللہ پر توکل کو اپنا شیوہ بنایا جائے۔ یہ واقعہ مسلمانوں کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ بنا رہے گا اور آنے والی نسلوں کو طاقت و عزم کا پیغام دیتا رہے گا۔

ضمانت(Disclaimer):

یہ بلاگ پوسٹ تاریخی واقعات پر مبنی ہے اور اس کا مقصد صرف تعلیمی و معلوماتی مقاصد کے لیے ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ معتبر تاریخی مصادر سے معلومات فراہم کی جائیں، لیکن قارئین سے درخواست ہے کہ وہ مزید تحقیق کے لیے مستند مآخذ کا خود بھی مطالعہ کریں۔

تاریخی اختلافات:
تاریخی واقعات کے بارے میں مختلف مصادر میں اختلافات موجود ہو سکتے ہیں۔ اس پوسٹ میں جو بیانات پیش کیے گئے ہیں، وہ معروف تاریخی روایات پر مبنی ہیں۔

مذہبی نقطہ نظر:
یہ مواد کسی خاص مذہبی نقطہ نظر کو مسلط کرنے کے بجائے تاریخی حقائق پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مختلف مسالک کے تاریخی واقعات کے بارے میں مختلف آراء ہو سکتی ہیں۔

سیاسی مقاصد:
اس تحریر کا مقصد کسی سیاسی ایجنڈے کی ترویج کرنا نہیں ہے۔ یہ محض تاریخی واقعات کی عکاسی کرتی ہے۔

حقوقِ اشاعت:
اس تحریر میں استعمال ہونے والے تمام تاریخی حوالے عوامی دائرہ کار (Public Domain) میں موجود ہیں۔ تحریر کے متن کی حق اشاعت مصنف کے پاس محفوظ ہے۔

تازہ کاری:
مصنف کو حق حاصل ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اس تحریر میں تازہ ترین معلومات کی روشنی میں ترمیم و اضافہ کر سکتا ہے۔

رائے کی آزادی:
اس تحریر میں پیش کیے گئے بیانات مصنف کی ذاتی تحقیق پر مبنی ہیں۔ قارئین اپنی رائے بتانے میں آزاد ہیں۔

غیر جانبدارانہ رویہ:
اس تحریر میں غیر جانبدارانہ تاریخی بیانات پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی بھی گروہ یا جماعت کے جذبات کو مجروح کرنا مقصود نہیں ہے۔

تاریخی تشریح:
تاریخی واقعات کی تشریح مختلف نقطہ ہائے نظر سے کی جا سکتی ہے۔ اس تحریر میں پیش کی گئی تشریح مصنف کی ذاتی تفہیم پر مبنی ہے۔

فکری ملکیت:
اس تحریر کے تمام حقوق محفوظ ہیں۔ بغیر اجازت اس مواد کی کاپی، نقل یا اشاعت ممنوع ہے۔

وابستگی:
یہ تحریر کسی سیاسی، مذہبی یا تنظیمی وابستگی کی ترجمان نہیں کرتی۔

تازہ ترین معلومات:
قارئین سے درخواست ہے کہ تاریخی معاملات میں مزید تحقیق کے لیے مستند مصادر کا رجوع کریں۔

رابطہ:
کسی بھی سوال یا تبصرے کے لیے مصنف سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

تاریخ اشاعت:
یہ تحریر 2025 میں شائع کی گئی ہے۔

تازہ کاری کی تاریخ:
آخری تازہ کاری: 2025

اختیاط:

تاریخی بیانات میں ممکنہ اختلافات کے پیش نظر قارئین سے گزارش ہے کہ وہ مختلف مصادر کا موازنہ کر کے اپنی رائے قائم کریں۔

ذمہ داری:
مصنف کسی بھی ممکنہ غلط فہمی یا اختلاف رائے کی صورت میں ذمہ دار نہیں ہوگا۔

استعمال کی شرائط:
اس تحریر کو پڑھنے والا تمام قارئین ان شرائط سے خود بخود متفق سمجھا جائے گا۔

تاریخی حوالہ جات:
تحریر میں پیش کردہ واقعات کے حوالہ جات معتبر تاریخی کتب سے لیے گئے ہیں۔

اختتامی نوٹ:
یہ تحریر صرف معلوماتی مقاصد کے لیے ہے۔ کسی بھی اہم فیصلے سے پہلے متعلقہ ماہرین سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

غزوہ خندق اور حضرت علیؑ کی شجاعت

غزوہ خندق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

غزوہ خندق: پس منظر اور اسباب

 پانچ ہجری کا زمانہ تھا۔ مدینہ منورہ میں اسلام اپنی بنیادیں مضبوط کر رہا تھا، جسے دیکھ کر مکہ کے مشرکین اور یہود کے دلوں میں حسد و بغض کی آگ بھڑک اٹھی۔ قریش مکہ، جن کی بدر اور احد میں شکست ہوئی تھی، اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھے۔ 

فوج کی قیادت اور متحد ہونے والے قبائل

انہوں نے عرب کے تمام قبائل، جن میں بنو کنانہ، بنو سلیم، غطفان، اشجع اور یہودی قبیلہ بنو نضیر (جنہیں مدینہ سے نکالا گیا تھا) کو ایک عظیم الشان اتحاد، جسے "احزاب” کہا جاتا ہے، میں جمع کر لیا۔ اس متحدہ فوج کی قیادت ابوسفیان کے ہاتھ میں تھی اور اس کا مقصد صرف اور صدار اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق اس لشکر کی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ تھی۔

 

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس عظیم خطرے سے آگاہ کر دیا۔ یہ محض مکہ کا لشکر نہیں تھا، بلکہ پورے عرب کی مشرک قوتوں کا اجتماعی حملہ تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوری طور پر صحابہ کرام کی ایک جنگی کونسل بلائی تاکہ اس قیامت خیز خطرے کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی طے کی جا سکے۔

 

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا تاریخی مشورہ

 

اس موقع پر ایک فارسی صحابی، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ، جو اپنی گہری نظر اور تجربے کے حامل تھے، نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ہم فارس (ایران) میں جب محصور ہو جاتے تھے تو شہر کے گرد خندق کھود لیتے تھے تاکہ دشمن کا گھوڑسوار براہ راست حملہ نہ کر سکے۔"

خندق کھودنا 

یہ ایک ایسا منفرد اور نیا خیال تھا جس کا عربوں کو کوئی تجربہ نہیں تھا۔ عربوں کی جنگوں کا طریقہ روبرو مقابلہ، نیزہ بازی اور تیراندازی تھا۔ دفاع کے لیے خندق کھودنا ایک اجنبی حربہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے اس دانشمندانہ مشورے کو فوری طور پر قبول فرما لیا۔ یہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت کی ایک اور جہت کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق بات کو قبول فرما لیتے تھے، چاہے وہ کسی بھی شخص کی طرف سے ہو۔

 خندق کا مقام

مدینہ کے شمالی، مشرقی اور مغربی جانب، جہاں سے دشمن کے حملے کا امکان تھا، ایک طویل اور گہری خندق کھودنے کا کام شروع ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی صحابہ کرام کے ساتھ مل کر مٹی اٹھاتے، پتھر توڑتے اور خندق کھودتے۔ مہاجرین و انصار میں اس قدر جذبہ اور یکجہتی تھی کہ وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے کام کر رہے تھے۔ خندق کی لمبائی تقریباً پانچ کلومیٹر، چوڑائی تقریباً نو میٹر اور گہرائی پانچ میٹر کے قریب تھی۔ یہ ایک عظیم الشان دفاعی تعمیر تھی جسے مسلمانوں نے انتہائی قلیل وقت میں مکمل کر لیا۔

 

لشکر کفار کا مدینہ پر حملہ اور خندق سے حیرت

 

جیسے ہی لشکر احزاب مدینہ کے قریب پہنچا، ان کی نظر اس عظیم خندق پر پڑی جو ان کے اور مدینہ کے درمیان ایک ناقابل عبور رکاوٹ بن کر کھڑی تھی۔ وہ اس حربے سے بالکل ناواقف تھے۔ ان کے لیے یہ ایک نئی اور حیران کن چیز تھی۔ عربوں میں خندق کھود کر لڑنے کا کوئی رواج نہ تھا۔ ان کے چند بہادر سوار، جن میں عمرو بن عبدود، عکرمہ بن ابی جہل، ضرار بن الخطاب، ہبیرہ بن ابی وہب اور نوفل بن عبداللہ شامل تھے، آگے بڑھے۔ وہ بنو کنانہ کے گھروں کے پاس سے گزرے اور للکارتے ہوئے کہا: "اے بنو کنانہ! تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ بہادر سوار کون ہیں؟"

 

لیکن جب ان کی نظر اس گہری اور وسیع خندق پر پڑی تو وہ حیران رہ گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: "یہ تو عجمی (غیر عرب) طریقہ ہے۔ یہ ضرور اس فارسی (سلمان فارسی) کی سازش ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہے۔” مجبوراً لشکر کفار نے خندق کے اس پار اپنا محاصرہ کیا ہوا کیمپ لگا لیا۔ محاصرہ طویل ہونے لگا جو مسلمانوں کے لیے ایک شدید آزمائش کا وقت تھا۔

 

عمرو بن عبدود: عرب کا ناقابل شکست پہلوان

 

اس لشکر کفار کا سب سے خطرناک اور طاقتور جنگجو عمرو بن عبدود تھا۔ وہ قبیلہ بنی عامر بن لؤی سے تعلق رکھتا تھا اور پورے عرب میں اس کی شجاعت اور جنگی مہارت کے چرچے تھے۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ تن تنہا ایک ہزار سواروں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اسے "فارس ملیل” (ملیل کا شہسوار) کا خطاب دیا گیا تھا، کیونکہ اس نے ایک بار مقام ملیل کے قریب بنو بکر کے ایک دستے کو تن تنہا شکست دی تھی۔ وہ جنگ بدر میں موجود تھا لیکن زخمی ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ جنگ احد میں شریک نہ ہو سکا۔ اب وہ مکمل طور پر تندرست ہو چکا تھا اور اپنی پوری طاقت اور غرور کے ساتھ لشکر کفار کا سب سے بڑا پہلوان بن کر آیا تھا۔

 

میدان جنگ میں للکار اور مولا علیؑ کی آمادگی

 

عمرو بن عبدود اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور خندق کا چکر لگا کر اس کا معائنہ کرنے لگا۔ اسے خندق کا ایک حصہ نسبتاً تنگ محسوس ہوا۔ اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ایک چھلانگ میں خندق پار کر کے مسلمانوں کے محاذ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اس نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑا اور غرور سے للکارنا شروع کیا:

 

"هَلْ مِن مُبَارِز؟” (کیا کوئی ہے جو میرے مقابلے کے لیے آئے؟)

 

اس کے ڈر اور رعب کی وجہ سے کوئی بھی صحابی فوری جواب دینے کی ہمت نہ کر سکا۔ وہ ایک دیوہیکل اور تجربہ کار جنگجو تھا۔ یہ دیکھ کر مولا علیؑ  اٹھے، جو اس وقت صرف 25 یا 26 سال کے نوجوان تھے۔ آپ نے اپنی زرہ پہنی ہوئی تھی اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا:

 "یا رسول اللہ! میں اس کے مقابلے پر جاؤں گا۔"

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اے علی! بیٹھ جاؤ، یہ عمرو ہے۔” یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کی حفاظت اور ان کی جوانی کا خیال فرمایا۔

 عمرو بن عبدود نے دوبارہ للکارا اور طنز کے انداز میں کہا: "کیا تم میں سے کوئی مرد موجود نہیں ہے؟ تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کا تم دعویٰ کرتے ہو کہ جو تم میں سے مارا جائے گا وہ اس میں داخل ہوگا؟ آؤ، میں تمہیں جنت پہنچا دوں۔"

 ایک بار پھر مولا علیؑ  نے کھڑے ہو کر اجازت مانگی، اور ایک بار پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بیٹھا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا، جو جنگ احد میں حضرت علی کے زخمی ہونے پر بہت روئی تھیں۔

 تیسری بار عمرو بن عبدود نے للکارا اور فخریہ اشعار پڑھے جن کا مفہوم تھا:

"میں نے پکار پکار کر تھکنے کی حد کر دی ہے… بہادری اور شجاعت کسی جوان کے بہترین اوصاف ہیں۔"

 اس کی لاف زنی سن کر مولا علیؑ  پھر اٹھے اور عرض کیا: "یا رسول اللہ! اب تو میں ضرور جاؤں گا۔"

اس بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: "اچھا جاؤ، یہ عمرو ہے۔"

مولا علیؑ  نے فوراً جواب دیا: عَمْرٌو ہَو؟ اَنَا عَلِيُّ بنُ أَبِي طَالِب! (وہ عمرو ہے تو کیا ہوا؟ میں علی بن ابی طالب ہوں!)

 یہ جواب سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مبارک ہاتھوں سے حضرت علی کو اپنی ذاتی زرہ "ذات الفضول” پہنائی، ان کے ہاتھ میں ذوالفقار تلوار تھمائی اور اپنا عمامہ مبارک "سحاب” ان کے سر پر باندھا، جس کے نو بیچ لٹک رہے تھے۔ جب مولا علیؑ  میدان کی طرف چلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی:

 اَللّٰهُمَّ! احْفَظْهُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَمِنْ فَوْقِهِ وَمِنْ تَحْتِهِ.

(اے اللہ! اس کی حفاظت فرما اس کے آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے، اوپر سے اور نیچے سے۔)

 

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جس نے اس مقابلے کے ایمان اور یقین کی آزمائش کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا:

بَرَزَ الْإِيْمَانُ كُلُّهُ إِلَى الشِّرْكِ كُلِّهِ.

(آج کل ایمان کل کفر کے مقابلے میں میدان میں جا رہا ہے۔)

 

تاریکی مقابلہ: گفتگو اور پھر جنگ

 مولا علیؑ  میدان میں پہنچے تو عمرو بن عبدود نے پوچھا: "تم کون ہو؟"

حضرت علی نے فرمایا: "میں علی بن ابی طالب ہوں۔"

عمرو نے کہا: "تمہارے والد میرے دوست تھے۔ تم واپس چلے جاؤ، میں تم جیسے نوجوان کو قتل کرنا نہیں چاہتا۔"

حضرت علی نے فرمایا: "لیکن میں تجھے قتل کرنا چاہتا ہوں۔"

عمرو نے اصرار کیا: "بھتیجے، میں تجھے قتل کرنا نہیں چاہتا۔ واپس چلا جا۔"

مولا علیؑ  نے جواب دیا: "میرے ابن عم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا ہے کہ اگر تو مجھے قتل کر دے گا تو میں جنت میں جاؤں گا اور تو دوزخ میں جاے گا۔ اور اگر میں تجھے قتل کر دوں تو پھر بھی تو دوزخ میں جائے گا اور میں جنت میں جاؤں گا۔"

 عمرو نے طنز کیا: "یہ تو بڑی عجیب تقسیم ہے!”

مولا علیؑ  نے پھر اسے اسلام کی دعوت دی: "میں تجھے گواہی دینے کی دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے رسول ہیں۔”

عمرو نے انکار کر دیا۔ مولا علیؑ  نے اسے میدان چھوڑ کر جانے کا مشورہ دیا، لیکن عمرو نے اپنی "بہادری” کے شہرہ اور عرب کی عورتوں کے طعنوں کے ڈر سے انکار کر دیا۔

 

آخر میں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ  نے کہا: "پھر آؤ، لیکن تم اپنے گھوڑے سے اتر کر پیدل مقابلہ کرو۔” یہ ایک جنگی چال تھی، کیونکہ عمرو گھوڑسوار ہونے کی وجہ سے فائدے میں تھا۔ عمرو نے غرور میں آ کر یہ شرط مان لی۔ اس نے اپنے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دیں (ایک روایت کے مطابق اسے ہانک کر بھگا دیا) تاکہ وہ پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہ رہے۔

 

فیصلہ کن ضرب اور فتح

 

مقابلہ شروع ہوا۔ عمرو بن عبدود نے پہلا وار کیا۔ اس کی تلوار کی ضرب اتنی زوردار تھی کہ اس نے حضرت علی کے خود (جنگی لباس والی ٹوپی) کو کاٹ ڈالا اور سر مبارک پر معمولی سا زخم آگیا۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کی باری آئی۔ آپ نے ایک ایسی بجلی کی طرح تیز ضرب لگائی کہ عمرو بن عبدود کا کندھا اور بازو جسم سے جدا ہو کر زمین پر گر گیا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ضرب اس کی ٹانگوں پر لگی تھی۔ وہ زمین پر گر پڑا۔

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ  اس کے سینے پر سوار ہو گئے تاکہ اس کا سر قلم کریں۔ اتنے میں اس بدبخت نے حضرت علی کے چہرہ مبارک پر تھوک دیا۔ یہ ایک انتہائی ذلت آمیز حرکت تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ  فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے چھوڑ کر تھوڑی دیر ٹہلنے لگے۔

 جب عمرو بن عبدود نے اس عمل کی وجہ پوچھی تو حضرت علی نے فرمایا: "تم نے میرے چہرے پر تھوک دیا۔ میں ذاتی غصے میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا۔ میں صرف اللہ کے لیے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے لڑ رہا ہوں۔ اب جبکہ میرا غصہ ٹھنڈا ہو چکا ہے، میں تمہیں اللہ کے لیے قتل کروں گا۔” یہ جواب اسلامی اخلاقیات اور جہاد فی سبیل اللہ کی حقیقی روح کی عکاسی کرتا ہے۔

 اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ  نے آگے بڑھ کر اس کا کام تمام کر دیا۔ اس ایک فتح نے پورے محاصرے کا پانسا پلٹ دیا۔ کفار کے حوصلے پست ہو گئے اور مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی گئی۔

 فتح کے بعد کے واقعات اور فضیلت کا اعتراف

 

حضرت علیؑ عمرو بن عبدود کا سر قلم کر کے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک اٹھا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے اٹھ کر حضرت علی کے سر کے بوسے لیے۔

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا: "اے علی! آپ نے اس کی زرہ کیوں نہیں اتاری، حالانکہ یہ پورے عرب میں سب سے قیمتی زرہ تھی؟"

حضرت علیؑ نے جواب دیا: "جب وہ نیم برہنہ حالت میں تھا تو میں نے اسے لوٹنا اپنے بھائی کی عزت کے خلاف سمجھا۔ مجھے اس سے شرم آئی۔"

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشی میں ارشاد فرمایا:

"ضَرْبَةُ عَلِيٍّ يَوْمَ الْخَنْدَقِ أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَّقَلَيْنِ.”

(خندق کے دن علی کی ایک ضرب جنوں اور انسانوں کی عبادت سے بھی افضل ہے۔)

 

ایک اور روایت میں ہے:

"لَمُبَارَزَةُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَمْرَو بْنَ عَبْدِ وُدٍّ يَوْمَ الْخَنْدَقِ أَفْضَلُ مِنْ أَعْمَالِ أُمَّتِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.”

(خندق کے دن علی بن ابی طالب کا عمرو بن عبدود سے مقابلہ قیامت تک میری امت کے تمام اعمال سے افضل ہے۔)

 حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے حضرت علی کی فضیلت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے قسم کھا کر کہا:

"اگر امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نیک اعمال، آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک، ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں اور علی رضی اللہ عنہ کا محض خندق والا عمل دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو علی کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔"

نتیجہ اور اثرات

 

عمرو بن عبدود کے قتل سے لشکر کفار کے حوصلے مکمل طور پر ٹوٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور ایک آندھی اور سردی کی طوفانی رات نے ان کے کیمپوں کو تہس نہس کر دیا۔ وہ اپنے آپ کو بچا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ غزوہ خندق مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح پر منتج ہوا، جس کا سہرا سب سے پہلے حضرت علیؑ کی بے مثال بہادری کے سر ہے۔

 

یہ واقعہ نہ صرف ایک جنگی مبارزہ تھا، بلکہ ایمان و توحید اور شرک و کفر کے درمیان ایک علامتی تصادم تھا۔ اس نے مسلمانوں کے ایمان کو مضبوط کیا، دشمنوں کے دل میں رعب پیدا کیا اور تاریخ میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبے کو ہمیشہ کے لیے روشن و تابناک کر دیا۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

حضرت علی کا بنی نضیر کے واقعہ میں کردار | ایک جرأت مندانہ کارروائی

حضرت علی علیہ السلام

حضرت علی علیہ السلام اور بنی نضیر کی فتح

مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کو ابتدا ہی سے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا سامنا تھا۔ باہر سے قریش مکہ اور ان کے اتحادی مسلمانوں کے خلاف ہر وقت سازشوں میں مصروف رہتے، جبکہ اندرونِ مدینہ یہودی قبائل نے بظاہر معاہدے تو کر رکھے تھے لیکن دلوں میں عداوت اور حسد بھرا ہوا تھا۔ انہی میں سے ایک قبیلہ بنی نضیر تھا، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔ انہوں نے نہ صرف قریش مکہ جیسے دشمنوں سے خفیہ رابطے قائم کیے بلکہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار کرنے لگے۔ یہاں تک کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان لینے کی گھناؤنی کوشش بھی کی۔ یہ صورتِ حال اسلامی ریاست کے لیے ناقابلِ برداشت خطرہ تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ ان کی اس بغاوت اور عہد شکنی کا جواب دینا ضروری ہے تاکہ مدینہ کو ہر طرح کی خیانت اور خطرے سے محفوظ بنایا جا سکے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محاصرہ بنی نضیر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جماعتِ صحابہ کے ساتھ بنی نضیر کے قلعوں کی جانب روانہ ہوئے۔ آپ نے بنی حطمہ کے ایک مقام پر اپنا خیمہ نصب فرمایا۔ یہ جگہ اس اعتبار سے اہم تھی کہ وہاں سے دشمن کے قلعوں کا محاصرہ آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔ مہاجرین اور انصار کے ساتھ ساتھ حضرت علی علیہ السلام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ کی طرح نبی اکرم کے محافظ اور اسلام کے شیر دل مجاہد کے طور پر صفِ اوّل میں موجود تھے۔

قاتلانہ حملہ اور حضرت علی علیہ السلام کی جرأت

محاصرے کے دوران رات کے وقت دشمن نے ایک خفیہ سازش کی۔ بنی نضیر کے ایک معروف جنگجو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیمے پر زہر آلود تیر پھینکا تاکہ آپ کی جان لی جا سکے۔ یہ کوئی عام حملہ نہیں تھا بلکہ دشمن کی جانب سے آخری اور انتہائی خطرناک کوشش تھی۔ تیر خیمے کے قریب لگا اور صحابہ میں بے چینی پھیل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً خیمہ ایک محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا حکم فرمایا اور پہرے کو مزید سخت کر دیا۔

اسی دوران صحابہ نے محسوس کیا کہ حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان موجود نہیں ہیں۔ تشویش پیدا ہوئی کہ شاید وہ دشمن کے تعاقب میں گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان دلایا اور فرمایا:
"علی ہمیشہ خیر اور بہادری کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، بے شک وہ کسی اہم خدمت میں مشغول ہوں گے۔ اللہ ان کی حفاظت فرما رہا ہے۔”

حقیقت میں حضرت علی علیہ السلام تاریکی میں گھات لگا کر دشمن کے اس سردار پر نظر رکھے ہوئے تھے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کیا تھا۔ ان کے دل میں غیرت اور غضب کی آگ بھڑک رہی تھی کہ یہ شخص کس قدر جرات مند ہے کہ اس نے نبی آخر الزمان کو نشانہ بنایا۔

دشمن کا مقابلہ اور فیصلہ کن وار

کچھ ہی دیر بعد دشمن کا سردار اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ نمودار ہوا۔ وہ مطمئن تھا کہ اس کا حملہ کامیاب رہا ہے اور شاید مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اندھیرے میں اسلام کا شیر، حضرت علی علیہ السلام، اس کا انتظار کر رہا ہے۔ جیسے ہی وہ قریب آیا، حضرت علی علیہ السلام تلوار اٹھا کر بجلی کی طرح اس پر جھپٹے اور ایک ہی وار میں اسے ختم کر دیا۔ باقی دشمن یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے اور اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ نکلے۔

حضرت علی علیہ السلام نے اس دشمن سردار کا سر کاٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور پورا واقعہ بیان کیا۔ پھر عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو اس کے ساتھیوں کا تعاقب کیا جائے تاکہ وہ قلعے تک نہ پہنچ سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تجویز کو منظور فرمایا اور حضرت علی علیہ السلام کی قیادت میں دس صحابہ کو روانہ فرمایا۔

حضرت علی علیہ السلام کی قیادت میں پیش قدمی

حضرت علی علیہ السلام اور ان کے ساتھی بجلی کی سی تیزی کے ساتھ دشمن کے تعاقب میں نکلے اور انہیں قلعے کے دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی جا لیا۔ ایک مختصر مگر شدید جھڑپ کے بعد تمام دشمن واصل جہنم کر دیے گئے۔ ان کے سروں کو واپس لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں ایک کنویں میں پھینک دیا جائے تاکہ یہ دشمنوں کے لیے عبرت کا سامان بن جائے۔

بنی نضیر کی فتح اور اس کے اثرات

یہ کارروائی دراصل پورے معرکے کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ حضرت علی علیہ السلام کی بے مثال شجاعت اور موقع شناسی نے بنی نضیر کے حوصلے پست کر دیے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ مسلمان نہ صرف قلعوں کا محاصرہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کے سب سے طاقتور جنگجوؤں کو بھی ہلاک کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نتیجتاً بنی نضیر کی ہمت ٹوٹ گئی اور وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ بالآخر انہیں مدینہ سے جلاوطن کر دیا گیا اور یوں اسلامی ریاست ایک بڑے خطرے سے محفوظ ہو گئی۔

نتیجہ

بنی نضیر کی فتح میں حضرت علی علیہ السلام کا کردار تاریخ اسلام کے سنہری ابواب میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔ ان کی شجاعت نے نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کو یقینی بنایا بلکہ دشمن کی سازشوں کو بھی ناکام کر دیا۔ یہ واقعہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اسلام کی حفاظت ہمیشہ بہادری، وفاداری اور قربانی سے ممکن ہوئی ہے۔ جب بھی دشمن نے اسلام پر وار کیا، حضرت علی علیہ السلام تلوار اور غیرت کے ساتھ صف اوّل میں موجود رہے اور اسلام کے مستقبل کو محفوظ بنایا۔

یہ تحریر خالصتاً تعلیمی اور دینی معلومات کے لیے مرتب کی گئی ہے۔ اس میں درج تاریخی واقعات معتبر اسلامی کتب اور روایات سے اخذ کیے گئے ہیں۔ قاری حضرات کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ کسی بھی مسئلے میں حتمی رہنمائی کے لیے معتبر علمائے کرام اور مستند ماخذ سے رجوع کریں۔ اس تحریر کا مقصد کسی مسلک یا گروہ کی دل آزاری نہیں بلکہ تاریخ اسلام کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

آسمانی رشتہ حضرت فاطمہ الزہراء اور حضرت علی کا نکاح

حضرت علی کا نکاح

تاریخ اسلام میں نکاح کی اہمیت

تاریخ اسلام میں نکاح کا تصور نہ صرف دو افراد کے باہمی تعلق کا نام ہے بلکہ یہ ایک ایسی روحانی اور سماجی بنیاد ہے جس پر ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے گھرانے میں قائم ہونے والا رشتہ یعنی حضرت علی کا نکاح اور حضرت فاطمہ الزہراءؑ کی شادی اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اسلام میں نکاح محض ایک دنیاوی معاہدہ نہیں بلکہ تقویٰ، ایثار اور محبت پر مبنی ایک پاکیزہ تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی اور فاطمہ کی شادی کو ہمیشہ تاریخ اسلام کے روشن ترین ابواب میں شمار کیا جاتا ہے۔


شادی کی تمہید: آسمانی پسندیدگی اور اللہ کی حکمت

روایات کے مطابق کئی جلیل القدر صحابہ نے حضرت فاطمہ الزہراءؑ کے رشتے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیشکش کی، لیکن آپ ﷺ نے کوئی فیصلہ نہ فرمایا۔ یہ تاخیر دراصل ایک آسمانی فیصلہ تھا۔ حضرت جبرائیلؑ اللہ کے حکم سے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ: ’’اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں فاطمہؑ کا رشتہ علیؑ کے ساتھ طے فرما دیا ہے۔‘‘
یہ اعلان اس بات کی دلیل تھا کہ حضرت علی کا نکاح صرف ایک دنیاوی ضرورت نہیں بلکہ ایک الٰہی منصوبہ تھا، جس کے ذریعے اسلام کا روحانی اور اخلاقی مستقبل روشن ہونا تھا۔


زوجین کی عمر، فضیلت اور مقام

نکاح کے وقت حضرت علیؑ کی عمر مبارک تقریباً 21 یا 22 برس تھی۔ وہ اپنی جوانی کے آغاز ہی سے علم، شجاعت اور تقویٰ کے لیے مشہور تھے۔ دوسری طرف حضرت فاطمہ الزہراءؑ کی عمر مبارک 9 سے 10 برس کے درمیان تھی۔ اُس دور کے معاشرتی معیار کے مطابق یہ عمر نکاح کے لیے عام سمجھی جاتی تھی۔
حضرت علیؑ نے بچپن ہی سے رسول اللہ ﷺ کی آغوش میں پرورش پائی، جبکہ حضرت فاطمہؑ کو بھی رسول اللہ ﷺ کی خصوصی تربیت حاصل تھی۔ اس لیے یہ نکاح نہ صرف ایک سماجی رشتہ تھا بلکہ دو عظیم تربیت یافتہ نفوس کا ملاپ تھا۔


تاریخی مجلس نکاح: سادگی اور وقار کا امتزاج

یہ عظیم نکاح مسجد نبوی میں منعقد ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے خاص صحابہ کو مدعو فرمایا اور نہایت باوقار انداز میں نکاح کی مجلس قائم ہوئی۔
حضرت علیؑ نے اپنی زرہ بیچ کر تقریباً 400 سے 480 درہم بطور مہر ادا کیے۔ یہ مہر اُس وقت کی معیاری اور باعزت رقم تھی، جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ نکاح کے موقع پر اسراف کے بجائے اعتدال اور سادگی ہی اصل سنت ہے۔ اس مجلس میں رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں اور صحابہ کرام کی موجودگی نے اس رشتے کو اور بھی بابرکت بنا دیا۔


جہیز: سادہ زندگی کی روشن مثال

حضرت فاطمہ الزہراءؑ کا جہیز دنیاوی نمود و نمائش سے پاک تھا۔ اس میں صرف چند ضروری اشیاء شامل تھیں:

  • ایک یمنی چادر

  • چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری تھی

  • ایک دستی چکی

  • ایک مشکیزہ

  • ایک ہانڈی

  • چمڑے کا بچھونا

یہ مختصر اور سادہ جہیز اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ تھا۔ آج کے معاشرے میں جب شادیوں پر اسراف کیا جاتا ہے، تو حضرت علی اور فاطمہ کی شادی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل برکت سادگی اور قناعت میں ہے، نہ کہ دولت اور شان و شوکت میں۔


رخصتی: پیغمبرانہ محبت اور رہنمائی

رخصتی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی لاڈلی بیٹی کو خود حضرت علیؑ کے گھر پہنچایا۔ راستے بھر آپ ﷺ نے ان کے لیے دعائیں کیں۔ جب حضرت فاطمہ الزہراءؑ اپنے نئے گھر میں داخل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے خصوصی دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔
آپ ﷺ نے حضرت علیؑ کو وصیت فرمائی کہ بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، ان کے حقوق ادا کرنا اور خاندانی زندگی کو محبت اور سکون کا گہوارہ بنانا۔ اس رہنمائی نے اس نکاح کو ایک کامل اور مثالی رشتہ بنا دیا۔


ولیمہ: غرباء پروری اور اسلامی اخوت

حضرت علیؑ نے نکاح کے بعد ایک سادہ ولیمہ کا اہتمام کیا۔ اس ولیمے کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں غرباء اور ضرورت مند افراد کو خاص طور پر مدعو کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی شرکت فرما کر اس دعوت کو مزید برکت عطا فرمائی اور دعا دی: ’’اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمَا فِي رِزْقِهِمَا وَاغْفِرْ لَهُمَا وَارْحَمْهُمَا‘‘
یہ ولیمہ اس بات کی علامت تھا کہ اسلام میں شادی کی خوشی کو معاشرتی انصاف اور غرباء پروری کے ساتھ منانا سب سے بڑی فضیلت ہے۔


خانگی زندگی: ایک مثالی نمونہ

حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ الزہراءؑ کی ازدواجی زندگی اسلامی تعلیمات اور باہمی تعاون کا بہترین عملی نمونہ تھی۔ گھریلو ذمہ داریاں تقسیم کی گئیں: حضرت فاطمہؑ گھر کے اندر کے امور کی نگہبانی کرتیں، جبکہ حضرت علیؑ گھر کے باہر کی ذمہ داریاں سنبھالتے۔
یہ گھر عبادت، تقویٰ، علم اور اخوت کا مرکز بن گیا۔ یہی وہ گھر تھا جہاں امام حسنؑ اور امام حسینؑ جیسے عظیم المرتبت فرزند پیدا ہوئے، جنہوں نے اسلام کی بقا اور سربلندی کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔


روحانی پہلو: آسمانی رشتہ اور اس کی حقیقت

حضرت علی کا نکاح اور حضرت فاطمہ الزہراءؑ کا رشتہ محض ایک دنیاوی تعلق نہیں تھا۔ روایات میں آیا ہے کہ یہ نکاح آسمانوں پر بھی منعقد ہوا اور فرشتوں نے اس کی خوشی منائی۔ یہی وجہ ہے کہ اس رشتے سے پیدا ہونے والی اولاد کو اللہ نے نبوت اور ولایت کے علوم کا وارث بنایا۔ یہ رشتہ ایک ایسا آسمانی معاہدہ تھا جس نے امت مسلمہ کے لیے صدیوں تک روشنی اور ہدایت فراہم کی۔


اجتماعی اثرات: امت مسلمہ کے لیے سبق

حضرت علی اور فاطمہ کی شادی نے امت کو کئی لازوال سبق دیے:

  • شادی میں سادگی اپنانا اور نمود و نمائش سے اجتناب کرنا۔

  • جہیز کے نام پر اسراف اور فضول خرچی سے بچنا۔

  • بیوی اور شوہر کے باہمی حقوق کو پہچاننا اور ادا کرنا۔

  • خانگی زندگی کو روحانی اقدار اور تقویٰ کی بنیاد پر قائم کرنا۔

  • اپنی اولاد کی تربیت ایمان اور قربانی کے جذبے کے ساتھ کرنا۔


کلمات دعائیہ: رسول اللہ ﷺ کی برکتیں

رسول اللہ ﷺ نے اس نکاح کے موقع پر خصوصی دعائیں فرمائیں جنہوں نے اس رشتے کو ہمیشہ کے لیے برکتوں سے بھر دیا۔ ان میں شامل تھا:
’’اللهم إني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم‘‘
’’اللهم بارك لعلي في فاطمة ولفاطمة في علي‘‘

یہ دعائیں آج بھی امت کے لیے روشنی اور رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔


نتیجہ: ایک ابدی رہنمائی اور اسلامی معاشرت کا نمونہ

آخرکار یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی کا نکاح اور حضرت فاطمہ الزہراءؑ کا رشتہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک عملی اور ابدی درس ہے۔ یہ رشتہ ہمیں سکھاتا ہے کہ نکاح کی کامیابی مال و دولت یا دنیاوی جاہ و جلال میں نہیں بلکہ تقویٰ، محبت، سادگی اور باہمی احترام میں پوشیدہ ہے۔

آج کے معاشرے میں جہاں شادیاں اسراف، دکھاوا اور غیر ضروری اخراجات کا شکار ہو گئی ہیں، وہاں حضرت علی اور فاطمہ کی شادی ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حقیقی کامیاب ازدواجی زندگی وہی ہے جو اللہ کی رضا اور سنت رسول ﷺ پر مبنی ہو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقدس نکاح سے سبق سیکھنے اور اپنی زندگیوں کو اسی بنیاد پر سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

اعلانِ لاتعلقی(ڈسکلیمر)

یہ تحریر صرف دینی و تاریخی معلومات کی فراہمی کے لیے مرتب کی گئی ہے۔ اس میں شامل واقعات اور حوالہ جات مستند تاریخی و حدیثی کتب سے ماخوذ ہیں، تاہم بعض مقامات پر مختلف مؤرخین اور روایات کے درمیان آراء کا فرق پایا جا سکتا ہے۔ قارئین کو چاہیے کہ کسی بھی مسئلۂ شرعی یا دینی رہنمائی کے لیے مستند علماء اور ماہرینِ دین سے رجوع کریں۔ اس مضمون کا مقصد محض تعلیم، فہم اور شعور کو بڑھانا ہے، نہ کہ کسی مخصوص مسلکی یا فقہی رائے کی ترویج کرنا۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

غزوہ بدر اور حضرت علیؑ: تاریخ اسلام میں ایمان و بہادری کی مثال

غزوہ بدر

غزوہ بدر اور حضرت علیؑ

مقدمہ: تاریخ اسلام اور غزوہ بدر کی اہمیت

تاریخ اسلام میں کچھ ایسے واقعات ہیں جو محض جنگی معرکے نہیں بلکہ ایمان، قربانی اور اخوت کی علامت ہیں۔ انہی میں سب سے نمایاں واقعہ غزوہ بدر ہے، جو 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو پیش آیا۔ یہ وہ دن تھا جب اہل ایمان نے دنیا کو دکھا دیا کہ ایمان کی طاقت ہمیشہ مادی وسائل پر غالب آتی ہے۔ اسی جنگ میں مولا علیؑ نے اپنی جوانی میں وہ کارنامے سرانجام دیے جو تاریخ اسلام کے روشن ابواب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
________________________________________

غزوہ بدر کا تاریخی پس منظر

ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کو قریش کی مخالفت، سازشوں اور جنگی دھمکیوں کا سامنا رہا۔ مشرکین مکہ مسلسل مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مدینہ میں مسلمانوں کی پوزیشن ابھی کمزور تھی اور معیشت بھی مشکلات کا شکار تھی۔ ایسے میں قریش کا ایک تجارتی قافلہ، جس کی قیادت ابوسفیان کر رہا تھا، بدر کے قریب سے گزرنے والا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے قافلے کو روکنے کا ارادہ فرمایا تاکہ قریش کی معاشی طاقت کو کمزور کیا جا سکے۔ لیکن قریش نے ایک بڑی فوجی تیاری کے ساتھ مدینہ کی طرف پیش قدمی کی۔ اس طرح جنگ بدر اسلام اور کفر کا پہلا عظیم معرکہ بن گیا۔
________________________________________

بدر کا مقام اور جغرافیائی اہمیت

تاریخ اسلام کے محققین کے مطابق بدر کا میدان مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک اہم مقام پر واقع تھا۔ یہاں پانی کے چشمے اور کنویں موجود تھے جو جنگ میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔ مسلمانوں نے حکمت عملی کے تحت کنوؤں پر قبضہ کر لیا جبکہ مشرکین پانی سے محروم ہو گئے۔ یہ حکمت عملی بھی رسول اللہ ﷺ کی قیادت اور صحابہؓ کے مشورے کا نتیجہ تھی۔
________________________________________

جنگ بدر میں مسلمانوں کی تیاری اور مشکلات

مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی۔ ان کے پاس:
• دو گھوڑے
• ستر اونٹ
• چند زرہیں اور تلواریں
دوسری طرف مشرکین کی فوج ایک ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل تھی، ان کے پاس بہتر اسلحہ، گھوڑے اور ساز و سامان موجود تھا۔ یہ فرق واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی صرف اللہ کی مدد اور ایمان کی پختگی سے ممکن تھی۔
________________________________________

حضرت علیؑ اور جنگ بدر کا روحانی پہلو

مولا علیؑ اس وقت صرف 23 برس کے نوجوان تھے۔ لیکن ایمان کی پختگی، رسول اللہ ﷺ سے محبت اور اللہ پر توکل نے انہیں اس جنگ کے سب سے بڑے ہیرو کے طور پر نمایاں کیا۔ مولا علیؑ رات کو عبادت اور دعا میں وقت گزارتے اور دن کو دشمن کے سامنے تلوار کے ساتھ ڈٹ جاتے۔ یہ ان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقی کامیابی روحانی اور جسمانی طاقت کے امتزاج سے حاصل ہوتی ہے۔
________________________________________

علمبرداری: حضرت علیؑ کو اسلام کا پرچم ملنا

رسول اللہ ﷺ نے مولا علیؑ کو جنگ بدر میں علم اسلام عطا فرمایا۔ تاریخ اسلام کے مطابق علمبرداری ایک نہایت اہم ذمہ داری تھی کیونکہ جنگ کے دوران پرچم گرنا فوج کے حوصلے کے لیے تباہ کن سمجھا جاتا تھا۔ مولا علیؑ نے اس ذمہ داری کو کمال شجاعت اور ثابت قدمی کے ساتھ نبھایا اور اسلام کا پرچم بلند رکھا۔
________________________________________

جنگ بدر کے ابتدائی مقابلے اور شیر خدا کی شجاعت

جنگ بدر کی ابتدا میں مشرکین کے تین بڑے سردار عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ میدان میں نکلے۔ ان کے مقابلے میں حضرت حمزہؓ، حضرت عبیدہؓ اور حضرت علیؑ آگے بڑھے۔
• مولا علیؑ نے ولید کو شکست دے کر قتل کیا۔
• حضرت حمزہؓ نے شیبہ کو مار ڈالا۔
• حضرت عبیدہؓ نے عتبہ کو زخمی کیا اور مولا علیؑ نے ان کی مدد کر کے اسے ختم کر دیا۔
یہ ابتدائی مقابلہ مسلمانوں کے لیے روحانی توانائی اور حوصلے کا باعث بنا اور مشرکین کی صفوں میں خوف پیدا ہوا۔
________________________________________

حضرت علیؑ کے کارنامے جنگ بدر میں

تاریخی روایات کے مطابق شیر خدا نے اس جنگ میں تقریباً 20 سے 22 مشرکین کو قتل کیا۔ یہ تعداد مشرکین کے کل مقتولین کا ایک تہائی بنتی ہے۔ یہ ان کی شجاعت، تیزی اور جنگی مہارت کا ثبوت ہے۔
حضرت علیؑ نے نہ صرف دشمن کے بڑے بڑے جنگجوؤں کو شکست دی بلکہ اپنی موجودگی سے مسلمانوں کے حوصلے کو بھی بلند کیا۔ ان کا کردار صرف جسمانی طاقت تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ ایک بہترین جنگی حکمت عملی کے ماہر بھی تھے۔
________________________________________

رسول اللہ ﷺ کی حفاظت میں حضرت علیؑ

غزوہ بدر کے دوران شیر خدا مسلسل رسول اللہ ﷺ کے قریب رہے۔ وہ ہر وقت یہ دیکھتے رہتے کہ کوئی دشمن اچانک حملہ نہ کر دے۔ ان کی یہ وفاداری اور جانثاری تاریخ اسلام میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؑ کے کارناموں کو سراہا اور انہیں اپنی امت کا روشن چراغ قرار دیا۔
________________________________________

جنگ بدر کے بعد مسلمانوں کی فتح اور تاریخ اسلام پر اثرات

جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح نے تاریخ اسلام میں ایک نیا موڑ پیدا کیا۔
• مسلمانوں کو سیاسی اور عسکری استحکام حاصل ہوا۔
• قریش کی طاقت ٹوٹ گئی اور ان کے دلوں میں خوف بیٹھ گیا۔
• مدینہ میں مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط ہو گئی۔
شیر خدا کے کارنامے نہ صرف جنگ بدر کی فتح کا ذریعہ بنے بلکہ آنے والے معرکوں جیسے غزوہ احد اور غزوہ خندق میں بھی ان کے کردار کی بنیاد فراہم کی۔
________________________________________

روحانی اور اخلاقی سبق حضرت علیؑ سے

مولا علیؑ کی سیرت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایمان، قربانی اور ایثار ہی کامیابی کے اصل عوامل ہیں۔ وہ راتوں کو عبادت میں مصروف رہتے اور دن کو دشمن کے سامنے ڈٹ جاتے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ مسلمان کو جسمانی طاقت کے ساتھ ساتھ روحانی مضبوطی بھی حاصل کرنی چاہیے۔
________________________________________

غزوہ بدر، حضرت علیؑ اور آج کے نوجوان

تاریخ اسلام میں مولا علیؑ کا کردار نوجوانوں کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ عمر کی کمی رکاوٹ نہیں ہوتی جب دل میں ایمان اور قربانی کا جذبہ ہو۔ آج کے نوجوانوں کے لیے حضرت علیؑ کی مثال مشعل راہ ہے کہ مشکلات کے باوجود استقامت اور بہادری سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
________________________________________

نتیجہ: غزوہ بدر تاریخ اسلام کا روشن باب

غزوہ بدر تاریخ اسلام کی وہ عظیم جنگ ہے جس نے دنیا کو یہ دکھایا کہ ایمان کی طاقت ہمیشہ غالب آتی ہے۔ شیر خدا کی بہادری، وفاداری اور روحانی طاقت نے اس جنگ کو ایک لازوال یادگار بنا دیا۔ انہوں نے نوجوانی میں وہ کارنامے انجام دیے جو رہتی دنیا تک مثال رہیں گے۔
تاریخ اسلام میں مولا علیؑ کا کردار نہ صرف جنگ بدر تک محدود ہے بلکہ آنے والے ہر دور کے لیے مسلمانوں کے لیے رہنمائی اور روشنی کا مینار ہے۔
________________________________________

حوالہ جات

• سیرت ابن ہشام
• تاریخ طبری
• صحیح بخاری
• صحیح مسلم
• الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب
• اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

مہاجرین انصار بھائی چارہ اور مسجد نبوی کی تعمیر میں حضرت علیؑ کا کردار | تاریخی حقائق

Muhajireen Ansar bhai charah, مہاجرین انصار بھائی چارہ

مہاجرین انصار بھائی چارہ کی بنیاد اور مولا علیؑ کا کلیدی کردار

مدینہ منورہ ہجرت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سب سے بڑا چیلنج مہاجرین انصار بھائی چارہ قائم کرنا تھا۔ یہ تاریخی  بھائی چارہ محض ایک رسم نہیں تھا بلکہ ایک مضبوط معاشرتی بنیاد تھی۔ مہاجرین انصار بھائی چارہ کے اس پاکیزہ رشتہ نے اسلام کی تاریخ بدل دی۔

اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  بھائی چارہ کا تاریخی اقدام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر مہاجر کو ہر انصار کا بھائی بنا دیا۔ یہ  بھائی چارہ کا رشتہ دین، عقیدہ اور باہمی تعاون پر مبنی تھا۔

اس مقدس  بھائی چارہ میں سب سے نمایاں رشتہ وہ تھا جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اے علی، تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔” اس طرح، مہاجرین انصار بھائی چارہ کے اس عظیم عمل میں مولا علیؑ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا براہِ راست بھائی قرار دیا گیا۔

مسجد نبوی کی تعمیر: مہاجرین انصار بھائی چارہ کی پہلی عملی مثال

مسجد نبوی کی تعمیر نے اس بھائی چارہ کو عملی شکل دی۔ مسجد نبوی کی تعمیر محض ایک عمارت کا کام نہیں تھی بلکہ  بھائی چارہ کی پہلی عملی مثال تھی۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے دوران مہاجرین انصار بھائی چارہ کی حقیقی روح نظر آتی تھی۔

مسجد نبوی کی تعمیر میں مولا علیؑ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے کام میں آپؑ سب سے آگے رہے۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے آپؑ نے بھاری پتھر اٹھائے اور بنیادیں کھودیں۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے اس عظیم کام میں آپؑ کے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے، لیکن آپؑ نے کام جاری رکھا۔

مسجد نبوی کی تعمیر کے سلسلہ میں مولا علیؑ کی خدمات درج ذیل تھیں:

  1. بے مثال جسمانی محنت: مسجد نبوی کی تعمیر کے دوران مولا علیؑ نے بھاری سے بھاری پتھر اٹھائے۔ مسجد نبوی کی تعمیر کا یہ کام انتہائی مشقت طلب تھا۔

  2. مالی تعاون اور ایثار: مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے مولا علیؑ نے اپنی پوری استطاعت سے زیادہ حصہ ڈالا۔ مسجد نبوی کی تعمیر پر آپؑ نے اپنی کمائی کا بڑا حصہ خرچ کیا۔

  3. ہنرمندی اور قیادت: مسجد نبوی کی تعمیر کے کام میں مولا علیؑ نے تعمیراتی ہنر کا مظاہرہ کیا۔ مسجد نبوی کی تعمیر کو مضبوط بنانے میں آپؑ نے اپنا فکر پیش کیا۔

  4. روحانی جذبہ: مسجد نبوی کی تعمیر کے ہر پتھر کے پیچھے مولا علیؑ کا گہرا روحانی جذبہ کارفرما تھا۔ مسجد نبوی کی تعمیر کا یہ کام اللہ کی رضا کے لیے تھا۔

نتیجہ: مہاجرین انصار بھائی چارہ کی دائمی یادگار

بھائی چارہ اور مسجد نبوی کی تعمیر میں مولا علیؑ کا کردار تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔  بھائی چارہ کی یہ مثال ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ مسجد نبوی کی تعمیر کا یہ عظیم کارنامہ بھائی چارہ کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

آج بھی مسجد نبوی کی تعمیر کی یہ عظیم یادگار مہاجرین انصار بھائی چارہ کی کہانی سناتی ہے۔ بھائی چارہ کا یہ پاکیزہ رشتہ اور مسجد نبوی کی تعمیر کا یہ عظیم کارنامہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایمان اور اخوت کی بنیاد پر تعمیر کی گئی معاشرہ ہی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔

 بھائی چارہ کے اس عظیم عمل اور مسجد نبوی کی تعمیر کے اس تاریخی کارنامہ میں مولا علیؑ کا کردار ہمیشہ چمکتا ہوا ستارہ بن کر رہے گا۔ یہ  بھائی چارہ کی حقیقی روح اور مسجد نبوی کی تعمیر کی اصل کہانی ہے۔


حوالہ جات کے لیے نوٹ: اس موضوع پر مزید گہرائی کے لیے معتبر تاریخی کتب جیسے "سیرت ابن ہشام”، "تاریخ طبری”، "بحار الانوار” اور "اعلام الوری بأعلام الہدی” کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

امانتوں کی واپسی اور مدینہ کی طرف سفر

حضرت علیؑ کی ہجرت مدینہ

حضرت علیؑ کی ہجرت مدینہ اور ابتدائی پس منظر

ہجرتِ مدینہ اسلامی تاریخ کا ایک عظیم اور فیصلہ کن موڑ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب مکہ میں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے مظالم اور دباؤ کو دیکھا تو اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ لیکن ہجرت کے اس سفر میں ایک نمایاں کردار حضرت علیؑ کا ہے۔ حضرت علیؑ کی ہجرت مدینہ نہ صرف ان کی شجاعت کی دلیل ہے بلکہ ایثار اور وفاداری کی روشن مثال بھی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے مکہ چھوڑنے سے پہلے اپنی امانتیں حضرت علیؑ کے سپرد کیں تاکہ وہ انہیں ان کے اصل مالکان تک پہنچا دیں۔ یہ ذمہ داری اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کو حضرت علیؑ پر مکمل اعتماد تھا۔ تمام امانتیں واپس کرنے کے بعد حضرت علیؑ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا۔

امانتوں کی واپسی اور ہجرت کا آغاز

رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں قریش اور دوسرے لوگوں کی امانتوں کا امین سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو نبی کریم ﷺ کی رسالت کو نہیں مانتے تھے، اپنے قیمتی سامان، زیورات اور مال آپ کے پاس امانت کے طور پر رکھتے تھے۔ جب ہجرت کا وقت آیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؑ کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ مکہ میں ٹھہریں اور سب کی امانتیں ان کے اصل مالکان تک پہنچا دیں۔

✦ امانتیں کتنی تھیں؟

تاریخ کے مطابق نبی کریم ﷺ کے پاس کئی قبیلوں اور افراد کی امانتیں تھیں۔ ان میں:

  • قریش کے سرداروں کے زیورات اور مال

  • تجارت کے قافلوں سے منسلک افراد کا سامان

  • اہلِ مکہ کی ذاتی اشیاء اور دولت شامل تھیں۔

یہ امانتیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ دشمنی کے باوجود مکہ والے رسول اللہ ﷺ کی دیانت پر کامل اعتماد رکھتے تھے۔

✦ حضرت علیؑ نے کیسے واپس کیں؟

ہجرت کی رات جب رسول اللہ ﷺ غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت علیؑ ان کے بستر پر سوئے۔ اگلی صبح اور آنے والے دنوں میں آپؑ نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق ایک ایک گھر جا کر یہ امانتیں واپس کیں۔

  • حضرت علیؑ ہر شخص کے دروازے پر گئے اور کہا:
    “یہ وہ امانت ہے جو تم نے محمد ﷺ کے پاس جمع کرائی تھی۔ وہ مجھے حکم دے کر گئے ہیں کہ تمہیں واپس کر دوں۔”

  • لوگوں نے حیرت سے یہ سب دیکھا کیونکہ وہ سوچ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ دشمنی کے باوجود ان کی امانتیں ضائع یا ضبط کر سکتے تھے، لیکن اس عمل نے سب کو حیران کر دیا۔

  • اس طرح حضرت علیؑ نے تمام امانتیں مکمل دیانت داری کے ساتھ واپس کر دیں۔

سخت اور دشوار سفر

حضرت علیؑ کی ہجرت مدینہ کا سفر آسان نہیں تھا۔ آپ نے دن کے وقت چھپ کر اور رات کے اندھیروں میں سفر کیا تاکہ قریش کی نظروں سے بچ سکیں۔ تاریخ میں آتا ہے کہ سفر کے دوران حضرت علیؑ کو پاؤں میں زخم ہو گئے، لیکن آپ نے ہمت نہ ہاری۔ کئی مقامات پر تھکاوٹ اور بھوک نے ستایا، مگر آپ کا مقصد صرف ایک تھا: رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچنا۔

مدینہ میں شاندار استقبال

جب حضرت علیؑ مدینہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے نہایت شفقت سے آپ کا استقبال کیا۔ آپ کے پاؤں زخموں سے چور تھے، اس پر نبی ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے مرہم رکھا اور دعائیں دیں۔ مدینہ کے مسلمان حضرت علیؑ کے ایثار اور صبر سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس دن کو اسلامی تاریخ میں حضرت علیؑ کی عظیم قربانی اور ثابت قدمی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

مؤاخاتِ مدینہ اور حضرت علیؑ

مدینہ میں ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے "مؤاخاتِ مدینہ” قائم کی، جس میں مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بنایا گیا۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جس نے اسلامی معاشرت میں اتحاد اور بھائی چارے کو جنم دیا۔

اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؑ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ یہ اعلان محض ایک رشتہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسی روحانی حقیقت تھی جو ظاہر کرتی ہے کہ حضرت علیؑ دینِ اسلام میں کس بلند مقام پر فائز ہیں۔

حضرت علیؑ کی ہجرت مدینہ سے ملنے والے اسباق

  1. ایثار اور وفاداری  حضرت علیؑ نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر رسول اللہ ﷺ کے مشن کو محفوظ کیا۔
  2. صبر اور ثابت قدمی   زخموں اور تھکن کے باوجود سفر جاری رکھا۔
  3. اعتماد اور قربت   رسول اللہ ﷺ کا آپ کو بھائی قرار دینا اس اعتماد کی علامت ہے۔
  4. اسلامی معاشرت کی بنیاد   مؤاخاتِ مدینہ نے ایک نئے معاشرتی نظام کو جنم دیا۔

نتیجہ

حضرت علیؑ کی ہجرت مدینہ اسلامی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ یہ سفر نہ صرف ایک جسمانی ہجرت تھا بلکہ وفاداری، صبر اور ایمان کی عملی تفسیر بھی تھا۔ حضرت علیؑ کی قربانیوں اور کردار نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال قائم کی۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔