فضیلت امام علی کی بے شمار دلیلیں قرآن و سنت میں بکھری پڑی ہیں، جن میں سے ایک پرشکوہ واقعہ آیت ولایت کا نزول ہے۔ یہ وہ منفرد موقع تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت امام علی کو ابدی قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا اور اپنے رسول کا ولی قرار دیا۔ یہ واقعہ نہ صرف فضیلت امام علی کی واضح اور ناقابل تردید دلیل ہے بلکہ ہر ایمان والے کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔ اس واقعے نے فضیلت امام علی کے مقام و مرتبہ کو قرآن مجید کے الفاظ میں ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا۔
قرآن مجید میں فضیلت امام علی کا اعلان
اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ میں ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (سورة المائدہ، آیت: 55)
"تمہارا دوست و مددگار اور حاکم صرف اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔”
اس مقدس آیت کے نزول کے پس منظر میں تمام معتبر مفسرین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت خاص طور پر فضیلت امام علی کی شان میں نازل ہوئی۔ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب ایک سائل نے مسجد نبوی میں مدد مانگی تو نماز کے دوران رکوع کی حالت میں ہی حضرت علی علیہ السلام نے اپنی قیمتی انگوٹھی خاموشی سے اس سائل کی طرف بڑھا کر عطا فرما دی۔
اس بے مثال عمل نے فضیلت امام علی کا وہ معیار قائم کیا جو قیامت تک کے لیے قرآن کریم کا حصہ بن گیا۔ یہ واحد موقعہ تھا جب کسی نے حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی برکت اور عظمت کو ہمیشہ کے لیے اپنی کتاب میں محفوظ فرما لیا۔ یہ عمل فضیلت امام علی کی بلندی اور ان کے بے مثال ایثار کو دکھاتا ہے۔
فضیلت امام علی کا زندہ منظر
متعدد معتبر تاریخی مصادر و مآخذ، جیسے کہ تفسیر طبری، کشف الغمہ، اور در المنثور میں تفصیل سے درج ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک اعرابی حاضر ہوا جو سخت مفلس اور حاجت مند تھا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جسم پر غربت و افلاس کے آثار نمایاں تھے۔ اس نے مسجد میں حاضر ہو کر تعاون کی درخواست کی مگر اس وقت موجود صحابہ کرام کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔
اسی لمحے حضرت علی علیہ السلام نماز میں رکوع کی حالت میں تھے۔ انہوں نے سائل کو اپنی انگوٹھی سے اشارہ کیا، سائل نے آگے بڑھ کر وہ انگوٹھی لے لی۔ یہ پورا منظر حضور نبی اکرم ﷺ کی نگاہوں کے سامنے ہوا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: "علی بن ابی طالب میرے بعد تمہارا ولی ہیں۔” اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے فضیلت امام علی کو ہمیشہ کے لیے آسمان دنیا پر ثبت کر دیا۔
یہ واقعہ فضیلت امام علی کی اس اعلیٰ مثال کو ظاہر کرتا ہے جہاں عبادت کی گہرائی اور خدمت خلق کا بے مثال امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ نماز جیسے مقدس عمل کے دوران بھی ایک مخلوق خدا کی حاجت روائی کو ترجیح دینا ہی درحقیقت فضیلت امام علی کی وہ حقیقت ہے جسے قرآن نے امر کر دیا۔
صحابہ کرام کا اعترافِ فضیلت امام علی
اس واقعے کے بعد صحابہ کرام نے بھی فضیلت امام علی کا برملا اعتراف کیا۔ معروف شاعر صحابی حسان بن ثابت نے فوراً کھڑے ہو کر یہ تاریخی اشعار پڑھے جن کا مفہوم ہے:
أَبَا حَسَنٍ فَدَتُكَ نَفْسِي وَمَهْجَتِي فَأَنْزَلَ فِيكَ اللَّهُ خَيْرَ وَلَايَةٍ وَبَيَّنَهَا فِي مُحْكَمَاتِ الشَّرَائِعِ
"اے ابو الحسن! میری جان و مال آپ پر قربان پس اللہ نے آپ پر بہترین ولایت نازل فرمائی اور اسے محکم شرائع میں واضح طور پر بیان کیا۔”
یہ اشعار فضیلت امام علی کے اس پہلو کی زندہ گواہی ہیں کہ ان کا عمل صرف ایک معمولی صدقہ نہیں تھا بلکہ ایک عظیم روحانی فریضہ کی بنیاد بنا۔ ان اشعار سے فضیلت امام علی کے مقام کا صحابہ کرام نے بھی اقرار کیا۔
ایک اور زاویہ سے فضیلت امام علی کا اثبات
ایک اور معروف روایت میں حضرت ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "علی پرہیزگاروں کے رہنما اور کافروں کے قاتل ہیں۔ جو اس کی مدد کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا اور جو اسے تنہا چھوڑے گا اللہ اسے تنہا چھوڑ دے گا۔” پھر انہوں نے اسی واقعہ انگوٹھی کو بیان کیا کہ کیسے رکوع میں انہوں نے سائل کی حاجت پوری کی۔ اس سے فضیلت امام علی کے مقام کی وسعت اور ان کی قیادت کے عالمگیر پہلو کا پتہ چلتا ہے۔ یہ روایت فضیلت امام علی کے ان فرائض کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو انہیں رسول اللہ ﷺ کے بعد اُمت کی رہبری کے لیے سونپے گئے۔
فضیلت امام علی: ایثار اور قربانی کی معراج
فضیلت امام علی کا یہ پہلو صرف دولت کے صدقے تک محدود نہیں۔ سورہ (الانسان) کا نزول ان کی اور ان کے پاک خاندان کی قربانی پر ہوا، جہاں انہوں نے تین دن تک مسلسل اپنا کھانا مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلا کر خود اور ان کا خاندان بھوکا رہا۔ یہ ایثار فضیلت امام علی اور ان کے خاندان کی اخلاقی اور روحانی برتری کو دکھاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بے مثال عمل کی تعریف میں پوری سورت نازل فرمائی، جس میں ان کے ایثار کو "وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا” کے الفاظ میں بیان کیا گیا۔ یہ فضیلت امام علی کے گھرانے کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اعتراضات کے جوابات اور فضیلت امام علی کا تسلسل
کچھ لوگ اس فضیلت امام علی کے واقعے پر اعتراض کرتے ہیں، لیکن یہ اعتراضات حقیقت اور تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی ہیں۔
- اعتراض: تین دن مسلسل بھوکا رہنا انسانی طور پر ممکن نہیں۔
- جواب: اولیاء اللہ اور بزرگان دین کے لیے یہ بالکل ممکن ہے۔ تاریخ میں ریاضت و عبادت کرنے والے افراد کے ایسے کارنامے درج ہیں۔ مزید برآں، یہ فضیلت امام علی اور ان کے پاک خاندان کا ایک معجزہ بھی تھا جو ان کی روحانی و اخلاقی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ان کی خاص فضیلت امام علی کا ایک حصہ تھی۔
- اعتراض: اپنے چھوٹے بچوں کو بھوکا رکھ کر دوسروں کو کھلانا درست نہیں۔
- جواب: یہ درحقیقت فضیلت امام علی کا وہ بے مثال ایثار ہے جس کی قرآن خود تعریف کرتا ہے: "وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ" (اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود انہیں شدید ضرورت ہو)۔ یہ عمل ان کی بلند روحانی فضیلت امام علی اور ان کے خاندان کے تربیت یافتہ ہونے کو ہی ظاہر کر سکتا ہے کہ انہوں نے اللہ کی رضا کے سامنے اپنی تمام تر دنیاوی ضرورتوں کو قربان کر دیا۔
خلاصہ: ابدی سبق اور دائمی نمونہ
آیت ولایت اور سورہ دَهر کا نزول درحقیقت فضیلت امام علی کے ایک ایسے جامع پہلو کو اجاگر کرتا ہے جو ہر دور کے مسلمان کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ یہ واقعات واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ فضیلت امام علی کا مقام و مرتبہ محض جنگوں اور فتوحات تک محدود نہیں، بلکہ ان کی عبادت کی گہرائی، ان کا بے پناہ ایثار، ان کی بے مثال خدمت خلق اور ان کی محبت الٰہی ہی وہ بنیادیں ہیں جن پر ان کی ولایت و امامت قائم ہے۔
فضیلت امام علی کا یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جو عبادت کے مقدس لمحات میں بھی انسانیت کی خدمت سے جڑا رہے اور اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کی ضروریات کو اہمیت دے۔ یہی فضیلت امام علی کا وہ ابدی پیغام ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔
فضیلت امام علی: حالت رکوع میں زکوٰۃ دینے کا منفرد اور بے مثال اعزاز
فضیلت امام علی کی بے شمار اور درخشاں دلیلیں قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں، جن میں سے ایک سب سے پرشکوہ اور واضح واقعہ سورہ مائدہ میں آیت ولایت کا نزول ہے۔ یہ وہ منفرد اور تاریخی موقع تھا جب اللہ تعالیٰ نے خود حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت امام علی کو ابدی قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا، اپنے رسول کا اور تمام مومنین کا ولی قرار دیا۔
یہ واقعہ نہ صرف فضیلت امام علی کی واضح اور ناقابل تردید دلیل ہے بلکہ ہر صاحب ایمان انسان کے لیے ہمیشہ کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔ اس واقعے نے فضیلت امام علی کے مقام و مرتبہ کو قرآن مجید کے الفاظ میں ہمیشہ کے لیے ثبت اور محفوظ کر دیا۔ یہ فضیلت امام علی کا وہ پہلو ہے جسے کوئی بھی صاحب علم شخص نظر انداز نہیں کر سکتا۔
قرآن مجید میں فضیلت امام علی کا واضح اور صریح اعلان
اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ میں ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (سورة المائدہ، آیت: 55)
"تمہارا دوست و مددگار اور حاکمِ اعلیٰ صرف اللہ ہے اور اس کا رسول (محمد ﷺ) اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔”
اس مقدس آیت کے نزول کے پس منظر میں تمام معتبر مفسرین اور محدثین کا اس پر کامل اتفاق ہے کہ یہ آیت خاص طور پر فضیلت امام علی کی شان میں نازل ہوئی۔ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب ایک سائل نے مسجد نبوی میں مدد مانگی تو نماز کے دوران رکوع کی حالت میں ہی حضرت علی علیہ السلام نے اپنی قیمتی انگوٹھی خاموشی سے اس سائل کی طرف بڑھا کر عطا فرما دی۔
اس بے مثال اور لاجواب عمل نے فضیلت امام علی کا وہ معیار قائم کیا جو قیامت تک کے لیے قرآن کریم کا حصہ بن گیا۔ یہ واحد موقعہ تھا جب کسی نے حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی برکت اور عظمت کو ہمیشہ کے لیے اپنی کتاب میں محفوظ فرما لیا۔ یہ عمل فضیلت امام علی کی بلندی اور ان کے بے مثال ایثار کو دکھاتا ہے۔ یہ فضیلت امام علی کی وہ دلیل ہے جو ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گی۔
نزولِ آیت کے متعلق پہلی روایت: فضیلت امام علی کا زندہ منظر
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے اسلام قبول کیا۔ ان میں عبداللہ بن سلام، اسد، ثعلبہ اور ابن صوریا جیسے جلیل القدر افراد سرفہرست تھے۔ یہ لوگ رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حضرت مولیٰ نے حضرت یوشع بن نون کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا، آپ کے بعد ہمارا سرپرست کون ہے؟ اس وقت یہ آیت إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ نازل ہوئی۔ پھر رسول خدا ﷺ نے فرمایا: اٹھو اور مسجد کی طرف چلیں۔ جب مسجد کے قریب پہنچے تو وہاں سے ایک سائل نکل رہا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تجھے کسی نے کچھ عطا کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، مجھے یہ انگوٹھی ملی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: یہ انگوٹھی کس نے عطا کی ہے؟ سائل نے کہا: مجھے یہ انگوٹھی اس شخص نے دی ہے جو نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اس نے تجھے انگوٹھی دی تھی تو وہ کس حالت میں تھا؟ سائل نے کہا: اس نے حالت رکوع میں مجھے یہ انگوٹھی دی تھی۔ رسول اکرم ﷺ نے تکبیر کہی اور آپ کے ساتھ اہل مسجد نے بھی تکبیر کہی۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: علی بن ابی طالب میرے بعد تمہارا ولی اور سرپرست ہے۔
حاضرین نے کہا: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، محمد ﷺ کے نبی ہونے اور علی علیہ السلام کے ولی ہونے پر راضی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی:
وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (سورہ مائدہ: آیت 56)
"جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کی ولایت کو قبول کرے گا، بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب ہے۔” اس موقع پر حسان بن ثابت کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ تاریخی اشعار کہے:
أَبَا حَسَنٍ فَدَتْكَ نَفْسِي وَمَهْجَتِي … فَأَنْتَّ الَّذِي أَعْطَيْتَ إِذْ كُنْتَ رَاكِعًا … فَأَنْزَلَ فِيكَ اللَّهُ خَيْرَ وَلَايَةٍ وَبَيَّنَهَا فِي مُحْكَمَاتِ الشَّرَائِعِ
"اے ابو الحسن! میری جان اور میری روح آپ پر قربان ہو اور دنیا میں ہر چلنے والا تیز رو اور شست رو مجھ پر قربان ہو۔ پس آپ ہی ہیں جس نے حالت رکوع میں خیرات عطا کی۔ اے بہترین رکوع کرنے والے! لوگوں کی جانیں آپ پر قربان ہوں۔ خدا نے تمہارے حق میں بہترین ولایت نازل فرمائی اور اسے محکم شرائع میں بیان کیا۔”
حسان بن ثابت نے اس موضوع پر یہ اشعار بھی کہے تھے:
عَلِيٌّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَخُو الْهُدَى … وَأَوَّلُ مَنْ أَدَّى الزَّكَاةَ بِكَفِّهِ … فَقَدْ سَارَ إِلَيْهِ خَاتَمًا وَهُوَ رَاكِعٌ … فَإِلَيْهِ وَلَمْ يَبْخَلْ وَلَمْ يَكُ جَافِيًا
"علی امیر المومنین ہیں، صاحب ہدایت ہیں اور جوتا پہننے والے اور ننگے پاؤں چلنے والوں سے افضل ہیں۔ وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے اپنے ہاتھ سے زکوٰۃ دی اور وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے نماز پڑھی اور بھوکا رہ کر روزہ رکھا۔ جب سائل ان کے پاس گیا تو انھوں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف دراز کیا اور انھوں نے کسی طرح کے بخل کا مظاہرہ نہ کیا اور وہ سنگ دل نہیں ہیں۔ حالت رکوع میں اسے انگوٹھی دی، وہ ہمیشہ سے ہی نیکی کے کاموں میں سبقت حاصل کرنے والے رہے ہیں۔”
حضرت خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین نے آپ کو ان الفاظ سے خراج عقیدت پیش کیا:
فَدَيْتُ عَلِيًّا إِمَامَ الْوَرَى … سِرَاجُ الْبَرِيَّةِ مَأْوَى التُّقَى … تَصَدَّقَ عَاتِبَهُ رَاكِعًا … فَأَحْسَنَ بِفِعْلِ إِمَامِ الْوَرَى … فَفَضَّلَهُ اللَّهُ رَبُّ الْعِبَادِ … وَأَنْزَلَ فِي شَأْنِهِ هَلْ أَتَى
"کائنات کے امام علی پر میری جان قربان ہو، وہ مخلوق میں چراغ ہیں اور پرہیزگاری کا ماویٰ ہیں۔ انھوں نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی راہ خدا میں صدقہ کی ہے۔ امام کائنات کا یہ فعل کتنا ہی بہتر اور خوبصورت ہے۔ بندوں کے پروردگار نے اسے فضیلت بخشی اور اس کی شان میں سورہ ‘ہل اتی’ نازل فرمائی۔”
نزول آیت کے متعلق دوسری روایت: جابر بن عبداللہ انصاری کی گواہی
جابر بن عبداللہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد نبوی میں رسول خدا ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس اثنا میں ایک اعرابی آیا، جس کے سر کے بالوں میں خاک تھی اور اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس کی شکل وصورت سے غربت و مفلسی ٹپک رہی تھی۔ اس کے ہمراہ اس کے کمسن بچے تھے۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اپنی غربت کا اظہار ان اشعار سے کیا:
يَا رَسُولَ رَبِّي أَتَيْتُكَ وَالْعُذْرُ بَكَى … وَقَدْ ذَهَلَتْ أُمُّ الصَّبِيِّ عَنِ الطِّفْلِ … وَقَدْ مَسَّنِي فَقْرٌ وَذُلٌّ وَفَاقَةٌ … وَلَسْنَا نَرَى إِلَّا إِلَيْكَ فِرَارَنَا … فَأَيْنَ مَفَرُّ الْخَلْقِ إِلَّا إِلَى الرُّسُلِ
"یا رسول رب! میں آپ کے پاس اس حالت میں آیا ہوں کہ میری کنواری بیٹی زور زور سے رو رہی ہے اور بچے کی ماں (غم کے مارے) بچے کو بھول چکی ہے۔ میری ایک بین دو پیٹیاں اور ایک بوڑھی ماں ہے۔ افلاس نے میری عقل پر پردہ ڈال دیا ہے۔ فقر، ذلت اور فاقہ نے مجھے گھیر لیا ہے۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے نہ میٹھی چیز ہے نہ کڑوی۔ ہم بھاگ کر آپ کے پاس آئے ہیں، کیونکہ مخلوق کا قلوق رسولوں کی طرف نہیں جائے گا تو پھر کہاں جائے گی؟”
رسول اکرم ﷺ نے اس کی داستانِ غربت سنی تو آپ نے بہت زیادہ گریہ کیا اور اپنے صحابہ سے فرمایا: "اے گروہ مسلمین! اللہ نے تمھیں ثواب کمانے اور اجر عظیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ جو اس کی حاجت روائی کرے گا، تو خدا اسے جنت میں ابراہیم خلیل اللہ کے محل کے سامنے جگہ عطا کرے گا۔ تم میں سے کون ہے جو اس غریب کی غمگساری کرے؟” بزمِ صحابہ میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام مسجد کے ایک کونے میں نماز نوافل ادا کر رہے تھے۔
آپ نے اپنے ہاتھ سے اعرابی کو اشارہ کیا۔ وہ آپ کے قریب آیا۔ آپ نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی اتار کر اس کے سپرد کی۔ اعرابی نے انگوٹھی لی اور واپس چلا گیا۔ اس وقت جبرائیل امین آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئے اور کہا کہ آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور اس نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی ہے:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (سورہ مائدہ: آیت ۵۱-۵۵)۔
اس وقت آنحضرت ﷺ اٹھے اور فرمایا: "اے گروہ مسلمین! آج کے دن تم میں کس نے ایسا نیک کام کیا ہے کہ خدا نے اسے اپنا ولی مقرر کیا ہے؟” صحابہ نے عرض کیا: ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا، البتہ آپ کے چچا زاد بھائی اور داماد علی علیہ السلام نے حالت رکوع میں سائل کو انگوٹھی دی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جنت کے وہ بالا خانے علی کے لیے واجب ہو گئے ہیں۔” پھر آپ نے صحابہ کے سامنے آیت ولایت کی تلاوت فرمائی۔
نزول آیت کے متعلق تیسری روایت: ابوذر غفاری کی گواہی
مناقب اور کشف الغمہ میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس چاہ زمزم کے منڈیر پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہ احادیث نبوی بیان کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس نے عمامہ کے ساتھ منہ ڈھانک رکھا تھا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ وہ شخص بھی کہتا کہ واقعی رسول خدا ﷺ نے یہ بات کہی تھی۔ ابن عباس کھڑے ہوئے اور آنے والے سے کہا: میں آپ کو خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ آپ کون ہیں؟
اس شخص نے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا: "لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ میں رسول خدا ﷺ کا بدری صحابی جندب بن جنادہ ابوذر غفاری ہوں۔
میں نے رسول خدا ﷺ سے اپنے ان کانوں سے سنا ہے اور اگر نہ سنا ہو تو خدا کرے میرے کان بہرے ہو جائیں اور وہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اگر نہ دیکھا ہو تو خدا کرے کہ میری آنکھیں اندھی ہو جائیں۔ میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا: ‘عَلِيٌّ قَائِدُ الْبَرَرَةِ وَقَاتِلُ الْكفَرَةِ مَنْصُورٌ مَنْ نَصَرَهُ مَخْذُولٌ مَنْ خَذَلَهُ’ (علی پرہیزگاروں کے رہبر ہیں، کافروں کے قاتل ہیں۔ جو اس کی مدد کرے گا، خدا اس کی مدد کرے گا اور جو اسے بے یار و مددگار چھوڑے گا، خدا اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے گا۔)”
ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں: "لوگو! میں نے ایک دن رسول خدا ﷺ کی اقتدا میں ظہر کی نماز پڑھی۔ ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اسے کچھ نہ دیا۔ سائل نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا: ‘خدایا! گواہ رہنا کہ میں نے مسجد رسول میں سوال کیا، لیکن مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا۔’ اس وقت حضرت علی علیہ السلام رکوع میں تھے۔
آپ نے اسے چھوٹی انگلی سے اشارہ کیا۔ آپ اس میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ سائل آیا اور انگوٹھی اتار کر چلا گیا۔ یہ سب کچھ رسول خدا ﷺ کے سامنے ہوا۔ پھر جب نبی اکرم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور دعا مانگی:
‘پروردگارا! میرے بھائی موسیٰ علیہ السلام نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ میرے سینے کو کشادہ کر اور میرے معاملات میرے لیے آسان فرما اور میری زبان کی گرہیں کھول دے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ میرے خاندان میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا۔ اس کے ذریعے سے میری کمر مضبوط فرما اور اسے میرے معاملات میں شریک فرما۔
‘ خدایا! تو نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی تھی اور اس سے قرآنی الفاظ میں یہ کہا تھا: ‘ہم تیرے بھائی سے تیرے بازو کو مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لیے حکومت قرار دیں گے۔ تمہارے دشمن تمہارے قریب نہ آسکیں گے۔’ خدایا! میں محمد تیرا نبی اور صفی ہوں۔ پروردگارا! میرے لیے میرا سینہ کشادہ کردے، میرے معاملات میرے لیے آسان کردے اور میرے خاندان میں سے علی کو میرا وزیر بنا، اس کے ذریعے سے میری کمر کو مضبوط فرما۔'”
جیسے ہی رسول خدا ﷺ کی یہ دعا مکمل ہوئی، آپ پر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا: "یا محمد! آپ یہ پڑھیں: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (سورہ مائدہ: آیت 55).”
مفسرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ آیت امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی اور یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپ نے سائل کو انگوٹھی عطا کی تھی۔ شان نزول میں اگرچہ اختلاف پایا جاتا ہے لیکن مضمون ایک ہے اور وہ فضیلت امام علی کا اثبات ہے۔
سورہ "ہل اتی” (الدھر) کا نزول: فضیلت امام علی اور اہل بیت کا ایثار
شیخ صدوق نے امالی میں اپنی سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے۔ انھوں نے اپنے والد ماجد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سورہ "ہل اتی” (الدھر) کی آیت وَيُوفُونَ بِالنَّذْرِ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ایک دفعہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام بیمار ہوئے۔ اس وقت وہ دونوں معصوم تھے۔ رسول خدا ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ دو اور افراد بھی تھے۔ ان دو میں سے ایک نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: "اے ابوالحسن! اگر آپ اپنے شہزادوں کی خاطر خدا کے حضور منت مان لیں تو اللہ تعالیٰ انھیں شفا یاب کر دے گا۔
” حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "میں خدا کے لیے تین روزوں کی منت مانتا ہوں کہ اگر میرے دونوں بچے شفایاب ہو گئے تو میں تین روزے رکھوں گا۔” حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے بھی اپنے شوہر کی طرح تین روزوں کی منت مانی۔ والدین کو دیکھ کر دونوں بچوں نے بھی اپنی شفایابی کے لیے تین روزوں کی نیت کر لی۔ جب گھر کے تمام افراد نے روزہ کی نیت کی تو اس گھر کی خادمہ بی بی فضہ نے بھی تین روزوں کی منت مان لی۔ اللہ تعالیٰ نے بچوں کو صحت عطا کی۔ آل محمد ﷺ نے منت کو پورا کرنے کے لیے روزہ رکھا۔
ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ حضرت علی علیہ السلام ایک یہودی ہمسائے کے پاس گئے جس کا نام شمعون تھا اور وہ اون کا کاروبار کرتا تھا۔ آپ نے یہودی سے فرمایا: "تم مجھے کچھ اون دے دو، رسول خدا ﷺ کی صاحبزادی تین صاع جو کے عوض اسے کاتے گی۔” اس نے کچھ اون اور جو آپ کے سپرد کیے۔ حضرت علی علیہ السلام وہ اون اور جو لے کر اپنی زوجہ کے پاس آئے۔
بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے پہلے دن ایک تہائی اون کا تا اور اس کے عوض ایک صاع جو لیے، ان کو پیس کر آٹا بنایا اور اس سے پانچ روٹیاں تیار کیں۔ گھر کے ہر فرد کے لیے ایک روٹی تیار کی گئی۔ شام ہوئی، حضرت علی علیہ السلام نماز مغرب کے لیے مسجد نبوی گئے اور نماز سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے۔ تمام افراد خانہ دسترخوان پر بیٹھے۔ ابھی آپ نے پہلا لقمہ توڑا ہی تھا کہ دروازے پر ایک شخص نے آواز دی: "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ مُحَمَّدٍ! میں ایک مسلمان مسکین ہوں، مجھے طعام کھلاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں جنت کے دسترخوان کا کھانا نصیب کرے گا۔”
حضرت علی علیہ السلام نے وہ لقمہ کھائے بغیر رکھ دیا اور آپ نے اپنی زوجہ محترمہ سے فرمایا:
يَا فَاطِمُ ذَاتَ الْمَجْدِ وَالْيَقِينِ … يَا بِنْتَ خَيْرِ النَّاسِ أَجْمَعِينَ
ان اشعار میں آپ نے حضرت سیدہ کو مساکین نوازی کی ترغیب دی تھی۔ حضرت سیدہ نے جواب میں کہا:
أَمْرُكَ سَمْعٌ يَا ابْنَ الْهُمَامِ وَطَاعَةٌ … مَا أَنَا مِنْ لُؤْمٍ وَلَا وَضَاعَةٍ
ان اشعار میں حضرت سیدہ نے اپنی مساکین نوازی کا تذکرہ کیا۔ الغرض، حضرت علی علیہ السلام نے اپنی روٹی اٹھائی۔ حضرت سیدہ نے اپنے حصہ کی روٹی اس میں شامل کی اور حسنین کریمین علیہما السلام نے اپنے اپنے حصہ کی روٹیاں اس میں شامل کیں اور حضرت فضہ نے بھی اپنی روٹی ان میں شامل کی۔ حضرت علی علیہ السلام نے وہ پانچوں روٹیاں مسکین کے سپرد کیں اور کچھ کھائے بغیر سو گئے۔ صبح ہوئی تو خالی پیٹ سب نے روزہ رکھا۔ حضرت سیدہ نے اون کی ایک اور تہائی کو کاتا اور ایک صاع جو لیے، انھیں پیس کر آٹا بنایا اور پانچ روٹیاں تیار کیں۔
حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم ﷺ سے ملنے اور دیگر کاموں کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد گھر آئے اور دسترخوان بچھایا گیا۔ افراد خانہ دسترخوان کے گرد بیٹھے۔ ابھی حضرت علی علیہ السلام نے پہلا لقمہ ہی توڑا تھا کہ دروازے پر کسی نے آواز دی: "اے اہل بیت محمد ﷺ! تم پر سلام ہو۔ میں ایک مسلمان یتیم ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ۔ اس کے عوض خدا تمہیں جنت کے دسترخوان پر کھانا کھلائے گا۔” حضرت علی علیہ السلام نے وہ لقمہ رکھ دیا اور اپنی زوجہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
فَاطِمُ بِنْتُ السَّيِّدِ الْكَرِيمِ … قَدْ جَاءَنَا بِذَا الْيَتِيمِ
سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا نے شوہر کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے جواب دیا:
فَسَوْفَ أُعْطِيهِ وَلَا أُبَالِي … وَأُوثِرُ اللَّهَ عَلَى جِبَالِي … أُمُوتُ جِيَاعًا وَهُمْ أَشْبَالِي
اس دن بھی حضرت علی علیہ السلام نے پانچوں روٹیاں اٹھا کر یتیم کے حوالے کر دیں اور افراد خانہ کچھ کھائے بغیر رہ گئے۔
الغرض، تیسرا دن ہوا۔ سب نے کچھ کھائے بغیر روزہ رکھا۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے اون کا تیسرا حصہ کاتا، اس کے عوض ایک صاع جو لیے، آٹا بنایا، پھر روٹیاں بنا کر دسترخوان پر رکھ دیں۔ حضرت علی علیہ السلام نماز مغرب پڑھ کر گھر آئے اور آپ نے لقمہ توڑا ہی تھا کہ دروازے پر کسی نے آواز دی: "اے اہل بیت محمد ﷺ! تم پر سلام ہو۔ آپ لوگ ہمیں قیدی بناتے ہیں اور ہمیں کھانا نہیں کھلاتے؟!!” حضرت علی علیہ السلام نے لقمہ واپس رکھا اور حضرت سیدہ سے خطاب کیا:
فَاطِمُ يَا بِنْتَ النَّبِيِّ أَحْمَدَ … بِنْتُ نَبِيٍّ سَيِّدٍ مُسَوَّدِ
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب میں کہا:
لَمْ يَبْقَ مِمَّا كَانَ غَيْرُ صَاعٍ … قَدْ دَبَّرَتْ كَفِّي مَعَ الذِّرَاعِ
پھر سیدہ نے اپنی سعادت کا تذکرہ کیا۔ اب کی بار بھی حضرت علی علیہ السلام نے دسترخوان پر موجود پانچوں روٹیاں اٹھا کر سائل کے حوالے کیں اور آل محمد ﷺ نے وہ شب بھی بھوک کی حالت میں بسر کی۔
پھر حضرت علی علیہ السلام، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کا ہاتھ تھامے رسول خدا ﷺ کے پاس گئے۔ بھوک کی وجہ سے ان کی حالت کافی نازک ہو چکی تھی اور دونوں معصوم بچے چوزوں کی طرح کانپ رہے تھے۔ جب رسول خدا ﷺ نے یہ حالت دیکھی تو آپ نے فرمایا: "اے ابوالحسن! بچوں کی یہ حالت کیوں بنی ہوئی ہے؟” حضرت علی علیہ السلام نے سارا واقعہ بیان کیا۔ رسول خدا ﷺ حجرہ سے اپنی صاحبزادی کے پاس تشریف لائے۔
اس وقت حضرت سیدہ محراب عبادت میں مصروف تھیں اور مسلسل بھوک کی وجہ سے آپ کا پیٹ پشت سے لگا ہوا تھا اور بی بی کی آنکھیں اندر کو دھنس چکی تھیں۔ رسول خدا ﷺ نے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا: "ہائے خدا کی پناہ! تم لوگ تین دن سے بھوکے ہو۔” اس وقت جبرائیل امین نازل ہوئے اور کہا: "یا رسول اللہ! اللہ نے جو کچھ آپ کی اہل بیت کی شان میں بیان کیا ہے، آپ اسے وصول کریں۔” اس وقت جبرائیل امین نے هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ سے لے کر إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا تک کی آیات آنحضرت ﷺ کو پڑھ کر سنائیں۔
حسن بن مہران کی روایت میں بیان ہوا ہے کہ نبی اکرم ﷺ بڑی تیزی سے اپنی صاحبزادی کے گھر تشریف لائے، انھیں جمع کیا اور ان کی حالت دیکھ کر رونے لگے اور فرمانے لگے: "تم کتنے دنوں سے بھوکے ہو؟” اس وقت جبرائیل امین یہ آیات لے کر نازل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: يُوفُونَ بِالنَّذْرِ یعنی وہ اپنی نذر پوری کرتے ہیں، مراد حضرت علی، فاطمہ، حسن، حسین علیہم السلام اور ان کی کنیز حضرت فضہ ہیں۔
وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
(سورہ دہر: آیت 7-8) یعنی اگرچہ انھیں خود بھی طعام کی ضرورت ہوتی ہے، پھر بھی ایثار سے کام لے کر مسلمان مسکین و یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کھانا کھلاتے وقت ان کی نیت یہ ہوتی ہے: إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (سورہ دہر: آیت 9) "ہم تمھیں اللہ کی رضا کی خاطر کھانا کھلاتے ہیں، ہم تم سے کوئی بدلہ اور کسی طرح کا شکریہ کے خواہش مند نہیں ہیں۔” یہ الفاظ خاندان مصطفی ﷺ نے اپنی زبان سے نہیں کہے تھے، اللہ نے ان کے ضمائر پر نظر کی اور اس کی ترجمانی فرمائی۔
علامہ مجلسی تحریر کرتے ہیں کہ سورہ "ہل اتی” کے شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس پر تمام محدثین و مفسرین کا اتفاق ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جیسے ایثار کی توقع خاندان مصطفی ﷺ کے علاوہ اور کسی گھرانے سے نہیں کی جا سکتی۔ یہ سورہ مبارکہ آل محمد ﷺ کی عظمت و جلالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اعتراضات کے مدلل جوابات اور فضیلت امام علی کا تسلسل
کچھ لوگ اس فضیلت امام علی کے واقعے پر از راہ تعصب یا ناواقفیت یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کوئی انسان تین دن تک مسلسل بھوکا کیسے رہ سکتا ہے؟
اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی خلاف عقل بات نہیں ہے۔ اولیاء اللہ اور صاحبِ کرامات افراد کے لیے یہ بالکل ممکن ہے۔ کچھ تاریخی رسائل میں تو ہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ کچھ افراد نے چالیس دن کا مسلسل چلنے والا روزہ (چلتے روزے) رکھا اور اس دوران ان کے جسم میں نہ تو کھانا گیا اور نہ ہی انھوں نے پانی پیا، مگر اس کے باوجود وہ زندہ رہے۔
اہلِ ریاضت و عبادت تو حیران کن طریقے سے بھوک پیاس کا سامنا کرتے ہیں۔ کچھ اولیاء ایسے بھی ہیں جنھوں نے پورے دن میں صرف ایک بادام پر گزارا کیا اور کئی برس تک ان کی یہی کیفیت رہی۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص زیادہ کھانے کا عادی ہو، اس کے لیے تین دن بھوکا رہنا مشکل ہوتا ہے اور جو شخص ریاضت اور عبادت کا عادی ہو، اس کے لیے بھوک برداشت کرنا ممکن ہوتا ہے۔ مزید برآں، یہ فضیلت امام علی اور ان کے خاندان کا ایک معجزہ بھی تھا جو ان کی روحانی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔
کچھ افراد، جنھیں آل محمد ﷺ کی فضیلت امام علی اور ان کے خاندان کی عظمت راس نہیں آتی، وہ اس مقام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بھلا یہ کیسی عبادت ہے کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنے چھوٹے معصوم بچوں کو بھوکا رکھ کر دوسروں کو کھانا کھلاتا رہے؟
ان لوگوں سے ہماری التماس ہے کہ اس چیز کو "ایثار” کہا جاتا ہے۔ ایثار وہ اعلیٰ ترین درجہ ہے جہاں انسان اپنی بنیادی ضروریات پر بھی دوسروں کو مقدم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی اہل ایثار کی تعریف کی ہے اور فرمایا ہے:
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (سورہ حشر: آیت 9)
"اور وہ ایثار سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ خود بھی سخت حاجت مند ہوتے ہیں۔” اگر ایثار مذموم ہوتا تو اللہ تعالیٰ آل محمد ﷺ کی شان میں سورہ "ہل اتی” کو کیوں نازل فرماتا؟ یہ فضیلت امام علی اور ان کے اہل بیت کا وہ ایثار ہے جو روز قیامت تک زندہ رہے گا۔ اور جب بھی کوئی مسلمان سورہ "ہل اتی” کی تلاوت کرے گا، تو اس کے سامنے آل محمد ﷺ کی وفائے عہد اور ایثار کی بے نظیر مثالیں سامنے آئیں گی، جو فضیلت امام علی کے اس پہلو کو ہمیشہ تازہ رکھیں گی۔
خلاصہ: ابدی سبق اور دائمی نمونہ
آیت ولایت اور سورہ "ہل اتی” (الدھر) کا نزول درحقیقت فضیلت امام علی کے ایک ایسے جامع اور ہمہ گیر پہلو کو اجاگر کرتا ہے جو ہر دور کے مسلمان کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ یہ واقعات واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ فضیلت امام علی کا مقام و مرتبہ محض جنگوں اور فتوحات تک محدود نہیں، بلکہ ان کی عبادت کی گہرائی، ان کا بے پناہ ایثار، ان کی بے مثال خدمت خلق اور ان کی محبت الٰہی ہی وہ بنیادیں ہیں
جن پر ان کی ولایت و امامت قائم ہے۔ فضیلت امام علی کا یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جو عبادت کے مقدس لمحات میں بھی انسانیت کی خدمت سے جڑا رہے اور اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کی ضروریات کو اہمیت دے۔ یہی فضیلت امام علی کا وہ ابدی پیغام ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مشعل راہ بنا رہے گا۔