اہلِ بیتؑ کی تاریخ

عداس نصرانی واقعہ: طائف میں روشنی کی ایک کرن

اسلامی تاریخ میں عداس نصرانی واقعہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب رسول اللہ ﷺ طائف کی طرف تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ ﷺ کو شدید تکلیفیں دی گئیں، مگر اللہ نے عداس نامی ایک نصرانی غلام کے ذریعے ایک امید کی روشنی دکھائی۔


طائف کا سفر اور عداس نصرانی واقعہ کی ابتدا

جب مکہ میں ظلم حد سے بڑھ گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے دعوتِ دین کے لیے طائف کا رخ کیا۔ وہاں کے سرداروں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ آپ ﷺ پر پتھر برسائے۔ اسی دوران، عداس نصرانی واقعہ اس وقت شروع ہوا جب طائف کے ایک باغ میں پناہ لیتے وقت ایک نصرانی غلام آپ ﷺ کے پاس انگور لے کر آیا۔


عداس نصرانی واقعہ کا ایمان افروز مکالمہ

رسول اللہ ﷺ نے انگور کھانے سے پہلے "بسم اللہ” کہا۔ عداس نے حیرت سے سوال کیا کہ "یہ الفاظ یہاں کے لوگ نہیں کہتے، آپ کہاں سے ہیں؟”
آپ ﷺ نے فرمایا: "میں اللہ کا نبی ہوں، مکہ سے آیا ہوں۔”
جب آپ ﷺ نے یونس علیہ السلام کا تذکرہ کیا تو عداس نے پہچان لیا کہ یہ واقعی اللہ کے نبی ہیں۔
یہی وہ لمحہ تھا جب عداس نصرانی واقعہ ایمان میں تبدیل ہو گیا، اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔


عداس نصرانی واقعہ کا سبق

  • عداس نصرانی واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ نرمی، اخلاق، اور حق کی دعوت دلوں کو فتح کر سکتی ہے۔

  • رسول اللہ ﷺ کا رویہ ایک مثال ہے کہ شدید مخالفت میں بھی صبر اور حکمت سے بات کی جائے۔


نتیجہ: عداس نصرانی واقعہ کا اثر

عداس نصرانی واقعہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ دعوتِ اسلام کی عظمت، اخلاق اور حقانیت کا ثبوت ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کی مدد کہیں سے بھی آ سکتی ہے۔

طائف کا سفر اور سختیاں

جب قریش مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی دعوتِ اسلام کو مسلسل رد کیا اور مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھا دیا، تو آپ ﷺ نے مکہ سے باہر دوسرے علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کا ارادہ فرمایا۔ سن 10 نبوی میں رسول اللہ ﷺ اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ طائف تشریف لے گئے۔ طائف میں آپ ﷺ نے وہاں کے سرداروں سے ملاقات کی اور ان کو اسلام کی دعوت دی، لیکن افسوس کہ انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ آپ ﷺ کا مذاق اُڑایا، گالیاں دیں، اور شہر کے اوباش لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جنہوں نے پتھر مار مار کر آپ ﷺ کو لہولہان کر دیا۔

عداس نصرانی کا ظہور

جب رسول اللہ ﷺ طائف سے مایوس ہو کر ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، تو وہ باغ عتبہ اور شیبہ نامی دو سرداروں کی ملکیت تھا جو مکہ کے رئیس تھے۔ انہوں نے آپ ﷺ کی حالت دیکھ کر دل میں رحم محسوس کیا اور انگوروں کا ایک خوشہ آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ انگور پیش کرنے کے لیے انہوں نے اپنے نصرانی غلام عداس کو بھیجا۔

عداس اور رسول اللہ ﷺ کا مکالمہ

جب عداس انگور لے کر آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے "بسم اللہ” کہہ کر کھانا شروع کیا۔ عداس نے یہ سنا تو حیرت سے پوچھا:

"یہ کلمات تو یہاں کے لوگ نہیں کہتے، آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟”

رسول اللہ ﷺ نے نرمی سے فرمایا:

"میں اللہ کا بندہ اور اس کا نبی ہوں۔ میرا تعلق مکہ سے ہے۔”

عداس نے پوچھا:

"آپ نے بسم اللہ کیوں کہا؟”

آپ ﷺ نے جواب دیا کہ یہ اللہ کا نام ہے، اور ہم ہر نیک کام کی ابتدا اسی سے کرتے ہیں۔

عداس نے مزید سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

"میں ایک نبی ہوں، اور میرے بھائی یونس بن متیؑ بھی نبی تھے۔”

یہ سن کر عداس حیرت سے بولا:

"یونس بن متی! وہ تو میرے قوم کے نبی تھے، آپ ان کو کیسے جانتے ہیں؟”

آپ ﷺ نے فرمایا:

"یونسؑ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ ہم دونوں اللہ کے بھیجے ہوئے بندے ہیں۔”

یہ باتیں سن کر عداس پر حقیقت آشکار ہو گئی۔ وہ آگے بڑھا، رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں اور قدموں کو بوسہ دیا، اور وہیں ایمان لے آیا۔

اہلِ طائف کی حیرت

جب عداس واپس گیا تو اس کے آقا، عتبہ اور شیبہ، حیرت سے بولے:

"افسوس! اس نصرانی کو بھی بہکا دیا؟”

عداس نے کہا:

"قسم خدا کی! اس شخص کی باتیں کسی انسان کی نہیں تھیں۔ وہ یقیناً اللہ کا نبی ہے!”

سبق اور پیغام

یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ:

  • دعوتِ حق نرمی، حکمت اور اخلاق سے پیش کی جائے تو دلوں کو متاثر کرتی ہے۔

  • دشمنی کے ماحول میں بھی اللہ تعالیٰ راہ ہدایت دکھاتا ہے۔

  • سچائی دلوں میں اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی ناموافق ہوں۔


نتیجہ

عداس نصرانی کا ایمان لانا اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت میں سچائی، اخلاق، اور خلوص اتنا مؤثر تھا کہ غیر مسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ طائف کا واقعہ مسلمانوں کے لیے ایک درس ہے کہ آزمائشوں میں صبر، اخلاق اور مسلسل کوشش ہی کامیابی کی کنجی ہے۔

 

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔