اہلِ بیتؑ کی تاریخ

تمہید: مہاجرین انصار بھائی چارا

رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارا قائم کیا تو یہ محض ایک سماجی معاہدہ نہیں تھا، بلکہ اسلامی اخوت کا ایک انقلابی تصور تھا۔ مہاجرین انصار بھائی چارا درحقیقت وہ عظیم الشان عمل تھا جس نے نہ صرف مدینہ کے معاشرتی ڈھانچے کو تبدیل کیا بلکہ پوری انسانیت کے لیے اخوت و مساوات کی ایک زندہ مثال قائم کی۔

تاریخی پس منظر: ہجرت کے بعد کے چیلنجز

جب مہاجرین مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معاشی اور معاشرتی تھا۔ مہاجرین نے اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ دیا تھا، جبکہ انصار کے پاس محدود وسائل تھے۔ ایسے میں رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین انصار بھائی چارا قائم کر کے نہ صرف معاشی مسائل حل کیے بلکہ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جہاں اخوت اور مساوات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔

مواخات کی تقریب: ایک انقلابی قدم

رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبوی میں ایک تقریب کا اہتمام فرمایا جس میں مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارے کے رشتے قائم کیے گئے۔ اس تقریب میں:

  1. 90 جوڑے بنائے گئے: 45 مہاجر اور 45 انصار کے درمیان بھائی چارے کے رشتے

  2. حقوق و فرائض: دونوں فریقوں کے حقوق و فرائض کا واضح تعین

  3. معاشی تعاون: انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ اپنا سب کچھ بانٹ لیا

  4. جذباتی تعلق: دلوں کے رشتے قائم کیے گئے

بھائی چارے کی چند عظیم مثالیں

مہاجرین انصار بھائی چارا کی چند عظیم مثالیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی گئی ہیں:

حضرت عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ربیع:
سعد بن ربیع نے اپنے مہاجر بھائی عبدالرحمن بن عوف کو پیشکش کی:
"میرا آدھا مال لے لو اور میری دو بیویوں میں سے ایک کو بھی منتخب کر لو”
عبدالرحمن بن عوف نے جواب دیا:
"اللہ آپ کے مال اور آپ کی بیویوں میں برکت دے، مجھے صرف بازار کا راستہ بتا دیں”

حضرت ابو بکر صدیق اور حارث بن خزیمہ:
حارث بن خزیمہ نے اپنا پورا گھر اور کاروبار ابو بکر صدیق کے حوالے کر دیا

قرآنی آیات اور احادیث میں مواخات کا ذکر

قرآن مجید میں مہاجرین انصار بھائی چارا کی عظمت کو واضح کیا گیا۔

"وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ”

سورة الحشر (59:9):

ترجمہ: "اور جو لوگ ان سے پہلے سے ہی دارالہجرت (مدینہ) میں رہائش پذیر اور ایمان کے حامل تھے، وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ان کے پاس ہجرت کرکے آئے ہیں، اور ان کے سینوں میں ان چیزوں کی کوئی حاجت نہیں پاتی جو انہیں دی گئی ہیں، اور وہ انہیں اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود انہیں حاجت ہو۔”

مواخات کے معاشی اثرات

مہاجرین انصار بھائی چارا کے معاشی اثرات نہایت دوررس تھے:

  1. معاشی خودکفالت: مہاجرین جلد ہی معاشی طور پر خودکفیل ہو گئے

  2. کاروباری شراکتیں: دونوں گروہوں کے درمیان کاروباری شراکتیں قائم ہوئیں

  3. زرعی اصلاحات: جدید زرعی طریقوں کا فروغ

  4. تجارتی نیٹ ورک: بین الاقوامی تجارتی روابط کا قیام

معاشرتی اور ثقافتی اثرات

مہاجرین انصار بھائی چارا نے معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے بھی گہرے اثرات مرتب کیے:

  1. ثقافتی ہم آہنگی: مختلف ثقافتوں کا حسین امتزاج

  2. سماجی انصاف: معاشرے کے تمام طبقات کے لیے یکساں حقوق

  3. تعلیمی ترقی: علم و حکمت کا فروغ

  4. اخلاقی تربیت: اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تشکیل

دور حاضر کے لیے پیغام

مہاجرین انصار بھائی چارا آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے:

  1. اخوت و اتحاد: مسلم اتحاد کی اہمیت

  2. معاشی انصاف: غرباء کی کفالت کی ضرورت

  3. سماجی ہم آہنگی: باہمی تعاون اور رواداری

  4. قومی یکجہتی: ملکی و قومی اتحاد کی ضرورت

آخر میں دعا

"اللهم اجعلنا من الذين يستمعون القول فيتبعون أحسنه، واجعلنا من العاملين بسنّة نبيك الكريم، وأدخلنا في رحمتك الواسعة”


ماخذ و مراجع:

  1. صحیح البخاری (کتاب المؤاخاة)

  2. صحیح مسلم (کتاب الإخوة)

  3. سیرت ابن ہشام

  4. تاریخ طبری

  5. الرحيق المختوم

  6. زاد المعاد

  7. الطبقات الکبریٰ

  8. البدایہ والنہایہ

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔