✨ تعارف:
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے، لیکن خاص طور پر نوجوانی کا دور ایک ایسا مرحلہ ہے جس میں انسان کے اندر قوت، جذبہ، اور احساس ذمہ داری اپنی بلند ترین سطح پر ہوتے ہیں۔
آج ہم حضرت محمد ﷺ کی جوانی کے کردار کا تفصیلی مطالعہ کریں گے — ایک ایسی جوانی جس میں کوئی لغزش نہ تھی، کوئی گناہ نہ تھا، بلکہ پاکیزگی، دیانت، سچائی اور خدمتِ خلق کا حسین امتزاج تھا۔
🕋 مکہ کے نوجوانوں کا عام رویہ:
حضرت محمد ﷺ کی جوانی کے دور میں مکہ کے نوجوانوں کا عمومی رویہ انتہائی غیر سنجیدہ، غفلت سے بھرپور، اور اخلاقی گراوٹ کا شکار تھا:
نشہ، زنا، جوا، اور گانے بجانے کی محفلیں
طاقتور قبیلے کمزوروں پر ظلم کرتے
غریب، یتیم اور عورتیں بدترین حالت میں زندگی گزارتے
انسانیت کا وقار پاؤں تلے روندا جا رہا تھا
ایسے گندے ماحول میں حضرت محمد ﷺ نے اپنی جوانی ایمان، شرم و حیا، سچائی، دیانت داری، اور صبر کے ساتھ گزاری۔
👤 حضرت محمد ﷺ کا ذاتی کردار:
1. دیانت و امانت کا پیکر:
آپ ﷺ کو مکہ کے سب لوگ "الصادق” (سچا) اور "الامین” (امانت دار) کے لقب سے پکارتے تھے۔
یہ لقب کوئی خود ساختہ نہ تھے بلکہ لوگوں کے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر تھے۔
📌 لوگ اپنی قیمتی چیزیں، سونا چاندی، اہم کاغذات، یہاں تک کہ دشمن بھی، آپ ﷺ کے پاس امانت رکھواتے تھے۔
2. پاکدامنی اور شرم و حیا:
حضرت محمد ﷺ نے اپنی جوانی کامل پاکدامنی کے ساتھ گزاری۔
جب کہ مکہ کا معاشرہ اخلاقی طور پر زوال کا شکار تھا، آپ ﷺ نے:
کبھی فحاشی کی مجلس میں قدم نہیں رکھا
کبھی عورتوں کے ساتھ غیر شرعی رویہ اختیار نہ کیا
ہمیشہ نظریں جھکائے رکھتے، اور زبان سے پاکیزہ کلمات ادا کرتے
📌 حضرت علیؓ فرماتے ہیں: "میں نے کبھی نبی کریم ﷺ کو کسی بری مجلس میں نہ دیکھا، نہ سنا کہ آپ نے کوئی فحش بات کی ہو۔”
3. محنت اور خودداری:
آپ ﷺ نے کبھی دوسروں پر بوجھ بننا پسند نہیں کیا۔ بچپن سے ہی:
بکریاں چرائیں
تجارت کی
محنت مزدوری کی
سفر کی مشقتیں برداشت کیں
یہ سب خودداری کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ جوانی کے دور میں جب اکثر لوگ سہولتیں چاہتے ہیں، آپ ﷺ نے پسینہ بہایا اور خود کمایا۔
4. معاشرتی تعلقات اور خدمت خلق:
حضرت محمد ﷺ کا نوجوانی میں مزاج:
ہمدردی: ہر مظلوم کی فریاد پر لبیک کہتے
عدل و انصاف: ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے
خدمت: ضعیفوں، غلاموں، اور مسافروں کی مدد کرتے
میانہ روی: خوش مزاجی کے ساتھ وقار قائم رکھتے
📌 مشہور واقعہ ہے کہ جب خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت قریش میں حجرِ اسود نصب کرنے پر جھگڑا ہوا، تو سب نے کہا:
"جس کو پہلے آتے دیکھیں گے، فیصلہ وہ کرے گا!”
حضرت محمد ﷺ تشریف لائے تو سب نے خوش ہو کر کہا:
"یہ تو الصادق الامین ہیں، ان کا فیصلہ ہمیں منظور ہے!”
یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کی جوانی کے کردار کو تمام قبائل احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
💼 تجارت میں کردار:
حضرت محمد ﷺ نے نوجوانی میں تجارت کا پیشہ اختیار کیا۔ آپ نے حضرت خدیجہؓ کا مال لے کر شام کے سفر کیے۔ اس دوران:
کبھی دھوکہ نہ دیا
سود و فریب سے بچتے
ناپ تول میں مکمل عدل کرتے
قیمتوں میں انصاف کرتے
گاہکوں سے حسن اخلاق سے پیش آتے
📌 حضرت خدیجہؓ کی لونڈی میسرہ نے واپسی پر کہا:
"میں نے اتنی شرافت اور دیانت کبھی نہیں دیکھی۔ لوگ ان سے متاثر ہو کر تجارت کرتے تھے اور خوشی سے خریدتے تھے۔”
❤️ حضرت خدیجہؓ سے نکاح:
آپ ﷺ کی دیانت اور اخلاق سے متاثر ہو کر حضرت خدیجہؓ نے آپ کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ آپ ﷺ نے یہ رشتہ قبول فرمایا اور نکاح کے بعد:
محبت، احترام اور وفا کی اعلیٰ مثال قائم کی
کبھی آواز بلند نہ کی
حضرت خدیجہؓ کی خدمات، مشوروں، اور قربانیوں کو سراہا
📌 حضرت خدیجہؓ فرمایا کرتیں: "میں نے محمد ﷺ جیسا شوہر نہ پہلے دیکھا نہ بعد میں۔”
🧠 نوجوانوں کے لیے پیغام:
حضرت محمد ﷺ کی جوانی ہمیں سکھاتی ہے کہ:
عزت کردار سے حاصل ہوتی ہے، دولت سے نہیں
سچائی اور امانت زندگی کے سب سے قیمتی خزانے ہیں
حیا، دیانت، اور محنت، ہر کامیاب شخصیت کی بنیاد ہیں
معاشرے کو بدلنے کے لیے پہلے خود کو بدلنا ضروری ہے
📌 نتیجہ:
حضرت محمد ﷺ کی ابتدائی زندگی، خاص طور پر جوانی، ہر نوجوان کے لیے مثالی کردار کا نمونہ ہے۔
جب دنیا عیش و عشرت میں گم تھی، آپ ﷺ دین، اخلاق، سچائی اور انسانیت کے لیے جی رہے تھے۔
اگر آج کے نوجوان حضرت محمد ﷺ کے نقش قدم پر چلیں تو:
معاشرہ پاکیزہ ہو سکتا ہے
ظلم و فحاشی کا خاتمہ ممکن ہے
کامیاب زندگی کی ضمانت مل سکتی ہے
🔁 پیغام عام کریں:
📣 آج کا پیغام دل کو چھو گیا؟
تو اسے شیئر کریں تاکہ نوجوان نسل کو سیرت محمدی ﷺ کی روشنی نصیب ہو۔