تاریخ اسلام کا ایک دردناک باب "عام الحزن” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ سال تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کو دو ایسے عظیم سہاروں کا غم ایک ساتھ سہنا پڑا جنہوں نے آپ ﷺ کی نبوت کے ابتدائی برسوں میں غیر معمولی کردار ادا کیا — حضرت ابو طالبؑ اور حضرت خدیجہؓ۔
✦ حضرت ابو طالبؑ کی وفات:
حضرت ابو طالبؑ، رسول اللہ ﷺ کے چچا، سرپرست، اور آپ ﷺ کے ابتدائی محافظ تھے۔ انہوں نے قریش کے دباؤ کے باوجود، پوری زندگی آپ ﷺ کی حفاظت اور حمایت کی۔
جب قریش نے آپ ﷺ کی دعوت کو روکنے کی کوشش کی، تو ابو طالبؑ نے انہیں واضح طور پر کہا:
"جب تک ابو طالب زندہ ہے، محمد ﷺ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔”
لیکن عام الحزن کے آغاز میں ہی ابو طالبؑ وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے بعد قریش نے نبی ﷺ پر ظلم و ستم مزید بڑھا دیا کیونکہ اب وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ کا دنیاوی محافظ دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔
✦ حضرت خدیجہؓ کا وصال:
کچھ ہی مہینوں بعد، رسول اللہ ﷺ کی زوجہ، حضرت خدیجہؓ، بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ وہ اسلام کی سب سے پہلی خاتون مومنہ تھیں، جنہوں نے نہ صرف ایمان لایا بلکہ اپنی دولت، محبت، مشورہ، اور مکمل سپورٹ رسول اللہ ﷺ کے مشن پر قربان کر دی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"خدیجہؓ نے اس وقت مجھ پر ایمان لایا جب لوگ انکار کر رہے تھے، اس نے اس وقت میرا ساتھ دیا جب سب نے مجھے ٹھکرا دیا۔”
حضرت خدیجہؓ کا وصال نبی ﷺ کے لیے ایک جذباتی زلزلہ تھا، جس نے آپ کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔
✦ عام الحزن کیوں کہا جاتا ہے؟
چونکہ حضرت ابو طالبؑ اور حضرت خدیجہؓ دونوں کی وفات ایک ہی سال میں ہوئی، اس سال کو رسول اللہ ﷺ نے خود "عام الحزن” یعنی "غم کا سال” قرار دیا۔ اس سال میں رسول اللہ ﷺ نہ صرف اپنے دو عظیم سہاروں سے محروم ہوئے، بلکہ قریش کے ظلم میں بھی اضافہ ہو گیا۔
یہ وہ سال تھا جب آپ ﷺ نے طائف کا سفر کیا، مگر وہاں آپ کو پتھر مارے گئے، آپ کا خون بہا، اور آپ کو شدید اذیت دی گئی۔ طائف کا واقعہ عام الحزن کی غم ناکی کو مزید بڑھا گیا۔
✦ نتیجہ:
عام الحزن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نبوت کی راہ صرف معجزات اور کامیابیوں کی کہانی نہیں بلکہ صبر، تکلیف، تنہائی، اور مسلسل آزمائشوں سے بھی بھری ہوئی ہے۔ حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالبؑ جیسے عظیم افراد کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی قربانیوں کے بغیر ابتدائی اسلام کی جدوجہد مکمل نہ ہوتی۔