اہلِ بیتؑ کی تاریخ

حضرت محمد کی زندگی میں طائف کا سفر ایک ایسا باب ہے جو صبر، دعا، اور اللہ پر مکمل توکل کی عظیم مثال پیش کرتا ہے۔ یہ سفر اس وقت اختیار کیا گیا جب مکہ میں کفار کی زیادتیوں نے شدت اختیار کر لی تھی۔
ماخذ: سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 419

عام الحزن کے بعد کا فیصلہ

حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد حضرت محمد ﷺ نہ صرف دینی بلکہ معاشرتی تحفظ سے بھی محروم ہو گئے۔ حضرت محمد کی زندگی کا یہ سال "عام الحزن” یعنی "غم کا سال” کہلاتا ہے۔
ماخذ: الطبقات الکبری، جلد 1، صفحہ 133

دعوتِ اسلام کے لیے طائف کا انتخاب

قریش کی دشمنی بڑھ چکی تھی، اس لیے حضرت محمد ﷺ نے طائف کا سفر کیا تاکہ وہاں کے قبائل کو اسلام کی دعوت دی جا سکے۔
ماخذ: الرھیق المختوم، صفحہ 95

سفر کی تفصیل:

  • آپ ﷺ تن تنہا نہیں گئے، بلکہ آپ کے ساتھ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔

  • طائف پہنچ کر آپ ﷺ نے ثقیف کے سرداروں (عبد یالیل، مسعود، اور حبیب) سے ملاقات کی اور انہیں اسلام کی دعوت دی

طائف میں اذیت ناک رویہ

طائف کے تین سرداروں نے آپ ﷺ کی دعوت کا تمسخر اڑایا اور شہر کے بچوں اور اوباشوں کو آپ پر چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے آپ ﷺ پر پتھر برسائے۔
ماخذ: سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 422–423

طائف والوں کا ردِ عمل:

  1. سخت انکار:

    • انہوں نے نہ صرف دعوت کو مسترد کیا، بلکہ آپ ﷺ کا مذاق اڑایا۔

    • کہا: "کیا اللہ نے تمہیں ہی رسول بنا کر بھیجا ہے؟”

  2. ظلم و تشدد:

    • انہوں نے اپنے غلاموں اور نوجوانوں کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو پتھر مار کر بھگا دیں۔

    • آپ ﷺ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کو پتھروں سے زخمی کیا گیا، یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک سے خون بہنے 

یہ واقعہ حضرت محمد کی زندگی کا سب سے کربناک لمحہ تھا، جب آپ ﷺ کے جوتے خون سے بھر گئے، مگر پھر بھی صبر کا دامن نہ چھوڑا۔

دعا اور اللہ کی طرف رجوع

جب آپ ﷺ ایک باغ میں پہنچے تو آپ نے رقت آمیز دعا فرمائی:

"اے اللہ! میں اپنی بے بسی، کمزوری اور لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے قدری کی شکایت تجھ سے کرتا ہوں…”
ماخذ: الرھیق المختوم، صفحہ 97

عداس کا ایمان لانا

اس باغ میں عداس نامی نصرانی غلام نے آپ کو انگور پیش کیے اور آپ کی باتوں سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔
ماخذ: سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 424

مکہ واپسی

واپسی پر حضرت محمد ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے کے لیے مطعم بن عدی کی پناہ حاصل کرنی پڑی۔
ماخذ: تاریخ طبری، جلد 2، صفحہ 85


اس سفر سے سبق و عبرت:

  1. صبر و استقامت:

    • اس واقعے میں رسول اللہ ﷺ کی صبر کی عظیم مثال ہے۔ آپ ﷺ نے ظلم کے باوجود بددعا نہیں دی، بلکہ رحمت کی دعا فرمائی۔

  2. اللہ پر توکل:

    • جب انسان کی ساری کوششیں ناکام ہو جائیں، تو اللہ ہی اس کا اصل سہارا ہے۔

  3. مقصد کی بلندی:

    • اس سفر کے بعد اللہ نے آپ ﷺ کو معراج کی سعادت سے نوازا، جہاں آپ کو تسلی دی گئی۔

  4. ثقیف کی بعد میں توبہ:

    • دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں قبیلہ ثقیف اسلام لے آیا اور وہ اسلام کے بڑے محافظ بنے۔

نتیجہ

حضرت محمد کی زندگی کا یہ مرحلہ بظاہر آزمائشوں سے بھرپور تھا، لیکن اسی میں صبر، حکمت اور دعوت کی عظیم مثالیں چھپی ہوئی تھیں۔ طائف کا یہ سفر بعد ازاں مدینہ کی کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

Join Us on Social Media