اہلِ بیتؑ کی تاریخ

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام جب ان پاکیزہ دلوں تک پہنچی جو سچائی کے متلاشی تھے، تو وہ ہدایت یافتہ ہو گئے۔ مکہ مکرمہ میں نبوت کے ابتدائی دور میں جب ظلم و ستم کا طوفان برپا تھا، تب بھی کچھ روشن دل ایسے تھے جو حق کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ایسے ہی ایک روشن دل کا نام تھا حضرت طفیل بن عمروؓ، جو قبیلہ دوس کے سردار اور ایک جید شاعر تھے۔ اُن کا ایمان لانے کا واقعہ آج بھی ہمارے لیے ایمان، عزم اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔


🧕 حضرت طفیل بن عمروؓ (ابو واز بہر الدوسی) کا تعارف

حضرت طفیل بن عمروؓ یمن کے ایک مشہور قبیلے "دوس” کے سردار تھے۔ وہ عرب کے مشہور شعراء میں سے تھے اور حکمت، فصاحت و بلاغت، عقل و شعور میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ وہ حج یا تجارت کے لیے مکہ مکرمہ آئے۔ قریش کے سرداروں نے انہیں فوراً گھیر لیا اور کہا:

"اے طفیل! محمد صلی اللہ علیہ وسلم جادوگر ہیں، ان کی باتیں مت سننا۔ وہ دلوں پر اثر ڈال دیتے ہیں۔”

یہ سن کر حضرت طفیلؓ نے اپنے کانوں میں روئی ڈال لی تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ سن سکیں۔


📖 قرآن کا معجزہ اور دل پر اثر

ایک دن وہ حرم میں تھے تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تلاوت کر رہے ہیں۔ چونکہ وہ فصیح عربی کے ماہر تھے، اس لیے دل میں سوچا:

"میں باشعور اور عقل مند ہوں۔ میں خود فیصلہ کر سکتا ہوں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔”

انہوں نے کانوں سے روئی نکالی اور غور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت سنی۔ قرآن کی الفاظ اور معنویت نے ان کے دل کو چھو لیا۔ وہ کانپتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا:

"اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی تلاوت نے میرے دل کو روشن کر دیا ہے، مجھے اپنا دین سکھائیں۔”


🌟 ایمان قبول کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی دعوت دی، تو انہوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور دل و جان سے مسلمان ہو گئے۔ حضرت طفیلؓ نے کہا:

"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے قبیلے دوس کو بھی یہ دین پہنچاؤں گا۔”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی اور فرمایا:

اللّٰهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ
"اے اللہ! دوس کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس لے آ۔”


🔄 قوم کی طرف واپسی اور دعوت

حضرت طفیلؓ واپس یمن گئے اور اپنے قبیلے والوں کو دعوت دی، لیکن وہ نہ مانے۔ وہ دوبارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے:

"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے قبیلے پر لعنت کیجیے۔”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کرنے کے بجائے ان کے حق میں دعا کی۔ پھر کچھ عرصے بعد قبیلہ دوس کے سینکڑوں افراد نے اسلام قبول کر لیا اور مدینہ ہجرت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔


⚔ جہاد میں شرکت

حضرت طفیلؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر، فتح مکہ، حنین اور تبوک میں شرکت کی۔ ان کے ایمان اور وفاداری میں کبھی کوئی کمی نہ آئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت طفیلؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی۔ یہ وہی جنگ تھی جس میں جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کے خلاف قتال ہوا۔


💔 شہادت

حضرت طفیلؓ نے اللہ سے دعا کی کہ:

"اے اللہ! مجھے شہادت عطا فرما، اور میرے بیٹے کو بھی شہادت نصیب ہو۔”

اور یوں ہوا کہ وہ جنگ یمامہ میں شدید زخمی ہوئے اور زبان پر "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” کے الفاظ کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ ان کے بیٹے عمرو بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔


📚 اس قصے سے حاصل ہونے والے اسباق

1. تعصب سے بچنا:

حضرت طفیلؓ کو بھی شروع میں تعصب کی باتیں کی گئیں، لیکن انہوں نے عقل و فہم سے کام لیا اور سچائی کو قبول کیا۔

2. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قوم کے لیے لعنت نہیں بلکہ ہدایت کی دعا کی، جس سے ہمیں صبر، برداشت اور اخلاق سیکھنا چاہیے۔

3. قرآن کی تاثیر:

قرآن کی تلاوت ایک ایسا معجزہ ہے جو دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ حضرت طفیلؓ پر بھی قرآن نے گہرا اثر ڈالا۔

4. دعوت کے لیے جدوجہد:

انہوں نے اپنی قوم کو ہدایت دینے کے لیے بار بار کوشش کی، جس سے دعوتِ دین کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔