صفیہ کی گواہی اسلامی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ صفیہ بنت حُیَیْ بن اخطب خیبر کے یہودی سردار کی بیٹی تھیں جو بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ بنیں۔ ان کا اسلام قبول کرنا اور صفیہ کی گواہی دینا درحقیقت اسلام کی عالمگیریت اور امن کے پیغام کی واضح دلیل ہے۔
خاندانی پس منظر اور نسب
صفیہ کی گواہی کو سمجھنے کے لیے ان کے خاندانی حالات کو جاننا ضروری ہے۔ صفیہ بنت حُیَیْ قبیلہ بنی نضیر کے سردار حُیَیْ بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ ان کا خاندان یہودیوں میں بہت معزز سمجھا جاتا تھا اور ان کے والد مدینہ کے یہودی قبائل کے بڑے رہنما تھے。
پہلی شادی اور غزوہ خیبر
صفیہ کی گواہی سے پہلے ان کی زندگی کے حالات جاننا ضروری ہے۔ ان کی پہلی شادی سلام بن مشکم سے ہوئی تھی، جو بعد میں طلاق پر ختم ہو گئی۔ پھر ان کا نکاح کنانہ بن ربیع سے ہوا جو خیبر کے یہودی سردار تھے۔ غزوہ خیبر کے موقع پر ان کے شوہر اور والد دونوں مارے گئے اور صفیہ قیدی بنائی گئیں۔
قید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیشی
صفیہ کی گواہی کا آغاز اسی قید کے بعد ہوا۔ جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور ان کے سامنے اسلام پیش کیا۔ صفیہ نے دل سے اسلام قبول کیا اور صفیہ کی گواہی دی کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح
صفیہ کی گواہی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔ یہ نکاح درحقیقت یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کا ذریعہ بنا۔ صفیہ ام المومنین بن گئیں اور انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزار دی۔
صفیہ کی گواہی کے روحانی پہلو
صفیہ کی گواہی محض زبانی اقرار نہیں تھی بلکہ اس کے گہرے روحانی معانی تھے۔ انہوں نے نہ صرف زبان سے کلمہ پڑھا بلکہ اپنے دل و جان سے اسلام کو قبول کیا۔ ان کی زندگی صفیہ کی گواہی کی عملی تفسیر بن گئی۔
ام المومنین کے طور پر خدمات
صفیہ کی گواہی کے بعد انہوں نے ام المومنین کے طور پر قابل ذکر خدمات انجام دیں:
علمی خدمات
صفیہ بنت حُیَیْ نے اسلامی علوم کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ قرآن مجید کی تعلیم دیتی تھیں اور خواتین کو دینی مسائل سکھاتی تھیں۔
سماجی خدمات
انہوں نے معاشرے میں خواتین کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ مسلمان خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا اور ان کی تعلیم کے لیے خصوصی انتظامات کیے۔
رہنمائی اور مشاورت
صفیہ بنت حُیَیْ نے اپنے علم و تجربے سے مسلم معاشرے کی رہنمائی کی۔ خاص طور پر یہودیوں کے ساتھ تعلقات میں ان کا کردار نہایت اہم تھا۔
حدیث روایت
صفیہ کی گواہی کے بعد انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد احادیث روایت کیں۔ ان کی روایت کردہ احادیث میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات
- خواتین کے حقوق سے متعلق احادیث
- بین المذاہب تعلقات کے بارے میں
صفیہ کی گواہی کے تاریخی اثرات
صفیہ کی گواہی کے متعدد تاریخی اثرات مرتب ہوئے:
بین المذاہب ہم آہنگی
ان کے اسلام قبول کرنے سے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوئے۔
خواتین کی تربیت
انہوں نے مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے قابل ذکر خدمات انجام دیں۔
اسلامی تعلیمات کی اشاعت
صفیہ بنت حُیَیْ نے اپنے علم سے اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔
صفیہ کی گواہی کے دور حاضر کے لیے پیغامات
صفیہ کی گواہی آج کے دور میں بھی ہمارے لیے بہت سے سبق رکھتی ہے:
بین المذاہب رواداری
ان کا اسلام قبول کرنا بین المذاہب رواداری اور باہمی احترام کی عمدہ مثال ہے۔
خواتین کے حقوق
ان کی زندگی مسلمان خواتین کے لیے ایک نمونہ ہے۔
علم کی اہمیت
انہوں نے علم کی اہمیت کو اجاگر کیا اور مسلمان خواتین کو تعلیم کی طرف راغب کیا۔
وفات اور میراث
صفیہ بنت حُیَیْ نے 50 ہجری میں وفات پائی اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد بھی صفیہ کی گواہی اور ان کی خدمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
تاریخی مصادر میں تذکرہ
صفیہ کی گواہی اور ان کی زندگی کے حالات متعدد تاریخی مصادر میں ملتے ہیں:
صحیح بخاری
صحیح مسلم
سنن ابی داؤد
تاریخ طبری
سیرت ابن ہشام
الاصابہ فی تمییز الصحابہ
دور حاضر کے لیے پیغام
صفیہ کی گواہی سے ہم درج ذیل سبق حاصل کر سکتے ہیں:
رواداری اور برداشت
ان کی زندگی بین المذاہب رواداری کی عمدہ مثال ہے۔
خواتین کی تعلیم
انہوں نے خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
ثابت قدمی
انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔
ماخذ و مراجع:
صحیح البخاری
صحیح مسلم
سنن ابی داؤد
سنن ترمذی
سیرت ابن اسحاق
سیرت ابن ہشام
تاریخ طبری
الاصابہ فی تمییز الصحابہ