اہلِ بیتؑ کی تاریخ

قرآن و سیرت میں عرضِ نفس کی مثال

اسلامی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو صرف ماضی کا حصہ نہیں بلکہ آج بھی دعوت و تبلیغ کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ قرآن و سیرت میں عرضِ نفس کی مثال ان میں سے ایک ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب نبی کریم ﷺ نے انتہائی صبر، حکمت اور عزم کے ساتھ مختلف قبائل کو اسلام کا پیغام پہنچایا، چاہے حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ تھے۔

پس منظر – مکہ اور طائف کے بعد کی صورتحال

مکہ مکرمہ میں 13 سال کی دعوت اور طائف کے مشکل سفر کے بعد، نبی ﷺ کو اپنے مشن کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو آپ کی مدد کریں اور اللہ کا دین عام کریں۔ اسی مقصد کے تحت حج کے موسم میں آپ ﷺ مکہ کے قریب آنے والے قبائل کے خیموں میں تشریف لے جاتے اور اپنا تعارف کراتے۔

عرضِ نفس کا طریقہ

عرضِ نفس کا مطلب تھا کہ آپ ﷺ قبیلے کے سرداروں اور بااثر افراد کے سامنے اپنے مشن کو پیش کریں، ان سے حمایت اور مدد کی درخواست کریں۔ یہ کوئی رسمی یا سیاسی دعوت نہیں تھی بلکہ خالصتاً اللہ کے دین کو زمین پر قائم کرنے کی کوشش تھی۔

قرآن کی روشنی میں یہ عمل

قرآن کریم میں کئی مقامات پر انبیاء کی اس حکمت کا ذکر ملتا ہے کہ وہ اپنی قوم یا دوسرے گروہوں کے سامنے کھل کر حق بات بیان کرتے تھے۔ نبی ﷺ کا یہ عمل اسی سنتِ انبیاء کا حصہ تھا۔

"تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے” (الاحزاب: 21)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ آپ ﷺ کے یہ عملی اقدامات آج بھی ہر داعی کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔

سیرت کے اہم واقعات

1. بنو عامر بن صعصعہ کے پاس جانا

نبی ﷺ نے بنو عامر کے قبیلے کے سردار کے سامنے اسلام کا پیغام رکھا، لیکن انہوں نے سیاسی شرائط عائد کر دیں، جو آپ ﷺ نے قبول نہ کیں۔

2. بنو شیبان کی مجلس

یہ قبیلہ بہادر اور معزز تھا، آپ ﷺ نے انہیں دعوت دی۔ انہوں نے دین کی بات پسند کی مگر فارس کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے مکمل حمایت نہ دے سکے۔

3. انصار سے ملاقات

مدینہ سے آنے والے چند نوجوانوں نے آپ ﷺ کا پیغام قبول کیا، جو بعد میں بیعت عقبہ کی بنیاد بنا اور اسلام کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہوا۔

دعوت کے اصول جو ہمیں سیکھنے چاہئیں

  • صبر اور ثابت قدمی: رد کیے جانے کے باوجود پیغام جاری رکھنا۔

  • حکمت اور موقع شناسی: حج کے موسم میں مختلف قبائل تک پہنچنا۔

  • اخلاص: مقصد صرف اللہ کی رضا اور دین کا فروغ ہو۔

آج کے لیے سبق

قرآن و سیرت میں عرضِ نفس کی مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ مشکلات کے باوجود پیغام پہنچانا، لوگوں کو خیر کی طرف بلانا اور حکمت سے کام لینا ایک داعی کی بنیادی صفات ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کا دین پھیلانے کے لیے محنت، صبر اور اخلاص ضروری ہیں، اور کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔