محمد ﷺ کا پیغام اور نبوت کی روشنی
اسلامی انبیاءؑ نے مختلف ادوار میں انسانیت کو ہدایت دی، اور اسلام کا پیغام جو ابتدا میں خاموشی سے پھیلا، تین سال بعد ایک نئے اور جرات مندانہ مرحلے میں داخل ہوا: اسلام کی علانیہ دعوت۔ اس مرحلے پر، حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا کہ وہ کھل کر اپنے قبیلے اور اہل مکہ کو توحید کی دعوت دیں اور شرک کی نفی کریں۔ کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر آپ ﷺ کا یہ اعلان، اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا جو ہمیشہ کے لیے حق و باطل کی حد بندی بن گیا۔
اسلامی انبیاءؑ کو علانیہ دعوت کا حکم – نبی محمد ﷺ کی ذمہ داری
تین سال تک خفیہ دعوت دینے اور ایک مخلص گروہ تیار کرنے کے بعد، حضرت محمد ﷺ کو یہ واضح حکم دیا گیا:
"اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کریں۔” (الشعراء: 214)
یہ آیت صرف ایک حکم نہیں، بلکہ ایک انقلابی تبدیلی تھی۔ اسلامی انبیاءؑ کبھی خاموش مبلغ نہیں رہے؛ اُن کا فرض تھا کہ وہ سچائی کو کھل کر بیان کریں، چاہے اس کے لیے کتنی ہی مخالفت کیوں نہ جھیلنی پڑے۔ یہی کردار ہر نبی، ہر رسول اور خاص طور پر حضرت حضور ﷺ نے ادا کیا۔ نبی کریم ﷺ کو یہ حکم ایسے وقت میں ملا جب مکہ میں شرک اور بت پرستی کا غلبہ تھا، اور لوگوں کے دلوں میں سختی، قبائلی تعصب اور دنیا پرستی کی جڑیں گہری تھیں۔
کوہِ صفا – نبی محمد ﷺ کا تاریخی اعلانِ رسالت
حضرت محمد ﷺ، جو آخری نبی اور عظیم رسول ہیں، نے کوہِ صفا پر چڑھ کر، جو کہ مکہ میں اعلانِ عام کا مرکزی مقام تھا، اہل قریش کو بلند آواز سے پکارا۔ یہ ایک حکمت بھرا قدم تھا جو ہر قبیلے اور فرد تک پیغام پہنچانے کے لیے اٹھایا گیا۔ قریش اس مقام پر اپنے اہم فیصلے سننے اور اہم خبریں سننے کے عادی تھے۔ نبی ﷺ نے اسی روایت کو استعمال کرتے ہوئے دعوتِ حق کی بنیاد علانیہ رکھ دی۔
"اے بنی فہر! اے بنی عدی! اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے والا ہے، تو کیا تم میری بات مانو گے؟”
سب نے جواب دیا: "ہاں، ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔”
تب نبی ﷺ نے فرمایا:
"تو سنو! میں تمہیں ایک بڑے عذاب سے پہلے خبردار کر رہا ہوں۔ میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے واضح پیغام لے کر آیا ہوں۔ اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ۔”
یہ خطاب محض ایک تنبیہ نہیں تھا بلکہ ایک نئی روحانی جدوجہد کا آغاز تھا۔ نبی ﷺ نے کھلے عام توحید کا اعلان کیا، قیامت کی خبر دی، اور انسانوں کو جھوٹے معبودوں سے نجات دلانے کی طرف بلایا۔
اس اعلان کے موقع پر جن قریبی رشتہ داروں اور قبائل کو دعوت دی گئی ان میں درج ذیل افراد شامل تھے:
حضرت علیؓ (اس وقت سب سے کم عمر مسلمان)
حضرت ابو طالب (نبی ﷺ کے چچا، جنہوں نے تحفظ فراہم کیا)
حضرت حمزہؓ (جو بعد میں ایمان لائے)
حضرت عباسؓ (چچا)
ابو لہب (جس نے سخت مخالفت کی)
بنی عبدالمطلب کے دیگر افراد
قریش کے تمام قبائل کے نمائندے
یہ وہ لوگ تھے جنہیں نبی محمد ﷺ نے سب سے پہلے جمع کر کے اسلام کی دعوت دی تاکہ وہ پہلے سچائی کو قبول کریں اور پھر معاشرے میں اسے پھیلائیں۔
قریش کا ردِعمل – محمد ﷺ اور مخالفت کا سامنا
یہ دعوت اہلِ مکہ کی روایات، رسم و رواج اور فخرِ قبیلہ پر کاری ضرب تھی۔ ان کی حیرانی غصے میں بدل گئی، خاص طور پر نبی کریم ﷺ کے چچا ابو لہب کا ردِعمل سب سے شدید تھا:
"تَبًّا لَكَ! أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟” (خاک ہو تیرا حال! کیا اسی لیے تُو نے ہمیں جمع کیا تھا؟)
اسی موقع پر سورۃ المسد نازل ہوئی، جو ابو لہب کی مذمت پر مبنی ہے۔ اس اعلان کے بعد قریش کی دشمنی کھل کر سامنے آ گئی۔ مسلمانوں کا مذاق اُڑایا جانے لگا، اُنہیں دھمکیاں دی گئیں، رشوت کی کوششیں ہوئیں اور کمزوروں پر ظلم و ستم کا آغاز ہو گیا۔
اہلِ قریش کو خدشہ لاحق ہو چکا تھا کہ یہ نبی ﷺ ان کے مذہبی نظام، ان کے اقتصادی مفادات اور قبائلی ساکھ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے وہ شدید ردعمل دینے لگے تاکہ اسلام کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔
نبی محمد ﷺ کی استقامت – ہر رسول کی سنت
اسلامی انبیاءؑ کی تاریخ صبر، حق گوئی اور استقلال کی تاریخ ہے، اور نبی اکرم محمد ﷺ اس میں سب سے نمایاں ہیں۔ آپ ﷺ نے جانتے ہوئے بھی کہ مخالفت کا سامنا ہو گا، اللہ کے حکم کی تعمیل کی۔ آپ کا پیغام کسی سیاسی مقصد کے لیے نہ تھا، بلکہ:
صرف ایک اللہ کی عبادت
ظلم، جبر اور استحصال کا خاتمہ
بت پرستی کی مخالفت
رحم، عدل، اور دیانت داری کی تعلیم
نبی ﷺ نے نہ تلوار اٹھائی، نہ اشتعال پھیلایا؛ آپ کی طاقت سچائی، کردار اور اخلاق میں تھی۔ یہی طرزِ عمل تمام نبیوں اور رسولوں کا خاصہ رہا ہے۔
آپ ﷺ نے ہر قسم کے طعن و تشنیع، سماجی بائیکاٹ، حتیٰ کہ جسمانی اذیتوں کا بھی صبر کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آپ کی دعوت میں محبت، ہمدردی اور اخلاص تھا جو ہر مخلص دل کو متاثر کرتا رہا۔
نبوی دعوت کے اثرات – محمد ﷺ کی علانیہ دعوت کا اثر
حق و باطل کی لکیر کھنچ گئی: اب لوگ غیر جانبدار نہیں رہ سکتے تھے۔ یا حق یا باطل!
اسلامی شناخت ابھری: مسلمانوں کی ایک الگ، نظریاتی جماعت وجود میں آئی۔
مخالفت میں شدت: قریش نے اسلام کو خطرہ سمجھ کر ظلم و جبر تیز کر دیا۔
دلوں میں ہلچل: کئی لوگ جو پہلے لاتعلق تھے، اب دلچسپی لینے لگے۔
ایک عظیم میراث کی ابتدا: یہ اعلان وہ بیج تھا جس سے ایک عالمی تحریک نے جنم لیا۔
دعوت کی وسعت: محمد ﷺ کی دعوت اب صرف قریش تک محدود نہ رہی، بلکہ دوسرے قبائل تک بھی پہنچنے لگی۔
نتیجہ – محمد ﷺ، نبی اور رسول کی مثال
کوہِ صفا پر نبی کریم ﷺ کا علانیہ اعلان، صرف ایک تقریر نہیں، بلکہ ایک عظیم انقلابی قدم تھا۔ یہ لمحہ نہ صرف حضرت محمد ﷺ کی زندگی بلکہ تمام اسلامی انبیاءؑ اور رسولوں کی جدوجہد کا عکاس تھا۔
یہ اعلان، جس میں صرف اللہ کی بندگی کی دعوت تھی، نے دنیا کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ حضرت محمد ﷺ، تمام نبیوں میں خاتم النبیین بنے، اور آپ ﷺ کا یہ کھلا پیغام آج بھی اربوں دلوں کو روشنی دیتا ہے۔