اہلِ بیتؑ کی تاریخ

معراج النبی ﷺ کا حیرت انگیز واقعہ!

معراج النبی

معراج النبی ﷺ کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا سب سے غیر معمولی اور معجزاتی واقعہ ہے جو حضور ﷺ کی عظمت اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات کا واضح ثبوت ہے۔ یہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل 27 رجب کی رات کو پیش آیا۔

✨ اسراء (مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک کا سفر):

  • معراج النبی ﷺ کا آغاز جبرائیل امین ؑ کی آمد سے ہوا

  • زمزم کے کنویں کے پاس وضو کرایا گیا

  • براق نامی سواری پر سوار کرایا گیا جو معراج النبی ﷺ کے لیے مخصوص تھی

  • مکہ سے بیت المقدس تک کا سفر معراج کی پہلی منزل تھی

🌌 معراج النبی ﷺ (آسمانوں کا عجیب و غریب سفر):

  1. پہلا آسمان:

    • حضرت آدم ؑ سے ملاقات ہوئی

    • دائیں جانب روشن روحیں (نیک بندوں کی) اور بائیں جانب تاریک روحیں (بدکاروں کی) دیکھیں

    • حضرت آدم ؑ نے خوشی کے ساتھ الرسول ﷺ کا استقبال کیا

    • یہ وہ مقام ہے جہاں انسانوں کی روحیں پہلی بار جمع ہوتی ہیں

  2. دوسرا آسمان:

    • حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی

    • دونوں خالہ زاد بھائی تھے اور ایک ساتھ کھڑے تھے

    • حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی امت کے بارے میں خاص دعا کی

    • اس آسمان پر علم و حکمت کے خاص خزانے موجود ہیں

  3. تیسرا آسمان:

    • حضرت یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی

    • آپ کو تمام مخلوقات میں سب سے خوبصورت صورت عطا کی گئی تھی

    • چاند کی مانند چہرے والے فرشتوں کا مشاہدہ

    • یہ وہ مقام ہے جہاں رزق تقسیم ہوتا ہے

  4. چوتھا آسمان:

    • حضرت ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی

    • آپ کو بلند مقام پر دیکھا گیا

    • فرشتوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے گرد جمع تھی

    • یہ وہ مقام ہے جہاں تقدیر کے فیصلے لکھے جاتے ہیں

  5. پانچواں آسمان:

    • حضرت ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی

    • آپ کے چہرے پر نورانی جلوہ تھا

    • آپ کے گرد بنی اسرائیل کے صالحین جمع تھے

    • یہ وہ مقام ہے جہاں توبہ قبول ہوتی ہے

  6. چھٹا آسمان:

    • حضرت موسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی

    • آپ نے اپنی امت کے لیے خصوصی دعا کی

    • تورات کے علوم کے خزانے دیکھنے کو ملے

    • یہ وہ مقام ہے جہاں عذابوں سے بچاؤ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں

  7. ساتواں آسمان:

    • حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی

    • آپ بیت المعمور (فرشتوں کی عبادت گاہ) کے پاس ٹیک لگائے بیٹھے تھے

    • ہر روز 70,000 فرشتے اس میں داخل ہوتے ہیں

    • یہ وہ مقام ہے جہاں سے تقدیر کے تمام احکام جاری ہوتے ہیں

🌠 سدرۃ المنتہیٰ تک معراج:

  • معراج النبی ﷺ کا انتہائی مقام سدرۃ المنتہیٰ تھا

  • یہ وہ مقام ہے جہاں معراج کے دوران جبرائیل ؑ بھی نہ جا سکے

  • معراج کے اس مقام پر پانچ وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ملا

🎁 معراج النبی ﷺ پر عطا ہونے والے انعامات:

  1. معراج کے موقع پر پانچ وقتہ نماز کی فرضیت

  2. معراج النبی ﷺ پر سورہ البقرہ کی آخری دو آیات کی خصوصی برکت

  3. معراج کے دوران امت کے لیے شفاعت کا خصوصی حق

📜 معراج النبی ﷺ کے تاریخی حقائق:

  • معراج کا یہ واقعہ جسمانی اور روحانی دونوں طرح سے پیش آیا

  • معراج النبی ﷺ کی خبر سن کر مکہ کے کفار نے انکار کیا

  • معراج کی تصدیق کرنے پر حضرت ابوبکر ؓ کو "صدیق” کا لقب ملا

💡 معراج النبی ﷺ سے حاصل ہونے والے اسباق:

  1. معراج ہمیں اللہ کی قدرت کاملہ کا درس دیتی ہے

  2. معراج النبی ﷺ نماز کی اہمیت کو واضح کرتی ہے

  3. معراج انبیاء کرام ؑ کے درمیان اخوت کا پیغام دیتی ہے

📖 معراج النبی ﷺ کے قرآنی حوالہ جات:

  1. سورہ بنی اسرائیل آیت 1:
    "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى”

  2. سورہ النجم آیات 13-18:
    "وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ”

🕌 معراج النبی ﷺ کی یاد میں عبادات:

  1. معراج کی رات (27 رجب) کو عبادت میں گزارنا

  2. معراج کے موقع پر فرض ہونے والی نمازوں کی پابندی کرنا

  3. معراج النبی ﷺ کے واقعے پر غور و فکر کرنا

🔍 معراج النبی ﷺ پر علمی تحقیقات:

  • معراج النبی ﷺ پر مختلف مفسرین کے اقوال

  • معراج کے حوالے سے اہل سنت و اہل تشیع کے نقطہ ہائے نظر

  • جدید سائنس کی روشنی میں معراج کا تجزیہ

📚 معراج النبی ﷺ پر مزید مطالعہ کے لیے کتب:

  1. "معراج النبی ﷺ” از ڈاکٹر محمد حمید اللہ

  2. "شاہکار معراج” از مفتی تقی عثمانی

  3. "الاسراء والمعراج” از ابن کثیر

🌠 اختتامی دعا:
"اے اللہ! ہمیں معراج النبی ﷺ کے واقعے سے صحیح سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ہماری نمازوں کو معراج کا ذریعہ بنا اور ہمیں اپنے حبیب ﷺ کی شفاعت نصیب فرما۔ آمین!”

✍️ مصنف کا نوٹ:
یہ مضمون معراج النبی ﷺ کی عظمت کو اجاگر کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔ کسی بھی قسم کی غلطی کی نشاندہی کی صورت میں براہ کرم اطلاع دیں۔

 
ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

اہل بیت کی تعریف اور ان کی فضیلت

اہل بیت کون ہیں؟

اہل بیت کون ہیں؟

اہل بیت سے مراد پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے وہ مقدس اور پاکیزہ گھرانے کے افراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خصوصی فضیلت اور عظمت عطا کی۔ اہل بیت کی تعریف اور ان کے مقام و مرتبے کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح اشارات موجود ہیں، لیکن اہل سنت والجماعت اور اہل تشیع کے درمیان اہل بیت کی تعریف، ان کے دائرے اور ان کے مقام کے بارے میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں اہل بیت کی فضیلت کو بیان کریں گے اور ساتھ ہی سنی و شیعہ نظریات کا تقابلی جائزہ پیش کریں گے۔


قرآن مجید میں اہل بیت کا ذکر

قرآن پاک کی متعدد آیات میں اہل بیت کے فضائل اور ان کی پاکیزگی کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے سب سے مشہور آیت تطہیر ہے:

"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا”
(سورۃ الاحزاب: 33)

ترجمہ: "بے شک اللہ چاہتا ہے کہ اے اہل بیت! تم سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کر دے۔”

یہ آیت اہل بیت کی عصمت و طہارت کی واضح دلیل ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں سنی اور شیعہ علماء کے درمیان کچھ اختلافات ہیں، لیکن دونوں مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ اس میں پیغمبر اسلام ﷺ کے قریبی خاندان (حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ) شامل ہیں۔


احادیث میں اہل بیت کا مقام

1. حدیث ثقلین (اتفاقی حدیث)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَدًا.”
(صحیح مسلم، ترمذی، مسند احمد)

ترجمہ: "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: اللہ کی کتاب (قرآن) اور میری عترت (اہل بیت)، اگر تم ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔”

  • سنی نقطہ نظر: اہل سنت کے نزدیک اس حدیث میں اہل بیت سے مراد پیغمبر ﷺ کا پورا نیک اور صالح خاندان ہے، جس میں ازواج مطہرات اور دیگر اقرباء بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

  • شیعہ نقطہ نظر: شیعہ عقیدے کے مطابق "عترت” سے مراد خاص طور پر حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت امام حسنؑ، حضرت امام حسینؑ اور ان کی اولاد میں سے بارہ ائمہ ہیں۔

2. حدیث کساء (مشہور واقعہ)

رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ کو اپنی چادر (کساء) کے نیچے جمع کیا اور فرمایا:

"اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَاذْهَبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا.”

  • سنی نقطہ نظر: اہل سنت اس حدیث کو مانتے ہیں لیکن ان کے نزدیک اہل بیت کا دائرہ وسیع تر ہے، جس میں ازواج مطہرات اور دیگر اقرباء بھی شامل ہیں۔

  • شیعہ نقطہ نظر: شیعہ اس حدیث کو اہل بیت کی پانچ شخصیات (پیغمبر ﷺ، علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ، حسینؓ) تک محدود مانتے ہیں اور انہیں معصوم سمجھتے ہیں۔


اہل بیت کون  ہیں؟ سنی و شیعہ نظریات

1. سنی عقیدہ

اہل سنت کے نزدیک اہل بیت میں مندرجہ ذیل افراد شامل ہیں:

  1. ازواج مطہرات (پیغمبر ﷺ کی بیویاں) – کیونکہ قرآن میں انہیں بھی "اہل البیت” کہا گیا ہے۔

  2. حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ  جن کا ذکر حدیث کساء میں ہے۔

  3. دیگر اقرباء – جیسے حضرت عباسؓ (رسول اللہ ﷺ کے چچا) اور ان کے خاندان والے۔

اہل سنت کے نزدیک اہل بیت کی محبت ضروری ہے، لیکن انہیں معصوم نہیں مانا جاتا۔

2. شیعہ عقیدہ

شیعہ عقیدے کے مطابق اہل بیت صرف وہ ہیں جنہیں "اصحاب کساء” کہا جاتا ہے، یعنی:

  1. حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ

  2. حضرت علیؑ (پہلے امام)

  3. حضرت فاطمہؑ (بیٹی اور معصومہ)

  4. حضرت امام حسنؑ (دوسرے امام)

  5. حضرت امام حسینؑ (تیسرے امام)

اس کے علاوہ شیعہ بارہ ائمہ کو بھی اہل بیت میں شمار کرتے ہیں اور انہیں معصوم مانتے ہیں۔


اہل بیت کی فضیلت اور امت میں ان کا مقام

1. سنی نقطہ نظر

  • اہل بیت کی محبت ضروری ہے، لیکن انہیں نبی یا معصوم نہیں مانا جاتا۔

  • اہل بیت کی اطاعت صرف اس حد تک ہے جب تک وہ قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔

  • اہل بیت کے ساتھ محبت رکھنی چاہیے، لیکن انہیں الوہیت یا غیر معمولی تقدس نہیں دیا جاتا۔

2. شیعہ نقطہ نظر

  • اہل بیت (خاص طور پر ائمہ) معصوم ہیں اور ان کی اطاعت واجب ہے۔

  • اہل بیت کو قرآن کے بعد دین کا دوسرا مصدر مانا جاتا ہے۔

  • ان کے اقوال و افعال کو حجت سمجھا جاتا ہے۔


اختلافی نکات اور مشترکہ عقائد

موضوع سنی نظریہ شیعہ نظریہ
اہل بیت کی تعریف ازواج مطہرات، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ، حسینؑ اور دیگر اقرباء صرف اصحاب کساء (پیغمبر ﷺ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ، حسینؑ) اور بارہ ائمہ
عصمت اہل بیت بڑے نیک ہیں، لیکن معصوم نہیں اہل بیت (خاص کر ائمہ) معصوم ہیں
اطاعت کا درجہ قرآن و سنت کے تابع قرآن کے بعد اہل بیت کی اطاعت لازم
محبت کا حکم ضروری، لیکن غلو نہیں محبت اور اطاعت دونوں ضروری

خلاصہ اور اختتام

اہل بیت اسلام کے سب سے مقدس اور محترم گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سنی اور شیعہ دونوں ان کی عظمت کے قائل ہیں، لیکن ان کی تعریف اور مقام کے بارے میں کچھ اختلافات موجود ہیں۔

  • اہل سنت اہل بیت کو پیغمبر ﷺ کے قریبی رشتہ داروں اور ازواج مطہرات تک وسیع تر دائرے میں دیکھتے ہیں۔

  • اہل تشیع اہل بیت کو خاص پانچ شخصیات (اصحاب کساء) اور بارہ ائمہ تک محدود مانتے ہیں اور انہیں معصوم سمجھتے ہیں۔

دونوں مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ اہل بیت سے محبت ہر مسلمان پر واجب ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اہل بیت کی سچی محبت اور ان کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

Disclaimer (اشتہارِ عام)

اس مضمون میں پیش کیے گئے تمام نظریات اور معلومات کا مقصد صرف علمی و تحقیقی فائدہ پہنچانا ہے۔ یہ تحریر سنی اور شیعہ نقطہ نظر کے درمیان موازنہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ قارئین دونوں مکاتب فکر کے عقائد کو سمجھ سکیں۔

  1. مذہبی اختلافات کا احترام: ہر مسلک کے ماننے والوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے، کسی بھی طرح کے تعصب یا تنقید سے گریز کیا گیا ہے۔

  2. حوالہ جات: تمام آیات، احادیث اور تاریخی واقعات کو معتبر مصادر سے پیش کیا گیا ہے۔

  3. رائے کی آزادی: یہ مضمون کسی خاص مکتبہ فکر کی تائید یا مخالفت نہیں کرتا، بلکہ صرف معلومات فراہم کرتا ہے۔

  4. تصحیح کا حق: اگر کسی حوالے یا بیان میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم اطلاع دیں تاکہ اصلاح کی جا سکے۔

  5. مزید تحقیق: قارئین سے گزارش ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی مسئلے پر اپنی رائے قائم کرنے سے پہلے مستند علماء اور معتبر کتب سے رجوع کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اتحاد و محبت کے ساتھ رہنے کی توفیق دے۔ آمین!

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

طائف کا سفر | حضرت محمد کی زندگی کا دردناک باب

حضرت محمد کی زندگی

حضرت محمد کی زندگی میں طائف کا سفر ایک ایسا باب ہے جو صبر، دعا، اور اللہ پر مکمل توکل کی عظیم مثال پیش کرتا ہے۔ یہ سفر اس وقت اختیار کیا گیا جب مکہ میں کفار کی زیادتیوں نے شدت اختیار کر لی تھی۔
ماخذ: سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 419

عام الحزن کے بعد کا فیصلہ

حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد حضرت محمد ﷺ نہ صرف دینی بلکہ معاشرتی تحفظ سے بھی محروم ہو گئے۔ حضرت محمد کی زندگی کا یہ سال "عام الحزن” یعنی "غم کا سال” کہلاتا ہے۔
ماخذ: الطبقات الکبری، جلد 1، صفحہ 133

دعوتِ اسلام کے لیے طائف کا انتخاب

قریش کی دشمنی بڑھ چکی تھی، اس لیے حضرت محمد ﷺ نے طائف کا سفر کیا تاکہ وہاں کے قبائل کو اسلام کی دعوت دی جا سکے۔
ماخذ: الرھیق المختوم، صفحہ 95

سفر کی تفصیل:

  • آپ ﷺ تن تنہا نہیں گئے، بلکہ آپ کے ساتھ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔

  • طائف پہنچ کر آپ ﷺ نے ثقیف کے سرداروں (عبد یالیل، مسعود، اور حبیب) سے ملاقات کی اور انہیں اسلام کی دعوت دی

طائف میں اذیت ناک رویہ

طائف کے تین سرداروں نے آپ ﷺ کی دعوت کا تمسخر اڑایا اور شہر کے بچوں اور اوباشوں کو آپ پر چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے آپ ﷺ پر پتھر برسائے۔
ماخذ: سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 422–423

طائف والوں کا ردِ عمل:

  1. سخت انکار:

    • انہوں نے نہ صرف دعوت کو مسترد کیا، بلکہ آپ ﷺ کا مذاق اڑایا۔

    • کہا: "کیا اللہ نے تمہیں ہی رسول بنا کر بھیجا ہے؟”

  2. ظلم و تشدد:

    • انہوں نے اپنے غلاموں اور نوجوانوں کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو پتھر مار کر بھگا دیں۔

    • آپ ﷺ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کو پتھروں سے زخمی کیا گیا، یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک سے خون بہنے 

یہ واقعہ حضرت محمد کی زندگی کا سب سے کربناک لمحہ تھا، جب آپ ﷺ کے جوتے خون سے بھر گئے، مگر پھر بھی صبر کا دامن نہ چھوڑا۔

دعا اور اللہ کی طرف رجوع

جب آپ ﷺ ایک باغ میں پہنچے تو آپ نے رقت آمیز دعا فرمائی:

"اے اللہ! میں اپنی بے بسی، کمزوری اور لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے قدری کی شکایت تجھ سے کرتا ہوں…”
ماخذ: الرھیق المختوم، صفحہ 97

عداس کا ایمان لانا

اس باغ میں عداس نامی نصرانی غلام نے آپ کو انگور پیش کیے اور آپ کی باتوں سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔
ماخذ: سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 424

مکہ واپسی

واپسی پر حضرت محمد ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے کے لیے مطعم بن عدی کی پناہ حاصل کرنی پڑی۔
ماخذ: تاریخ طبری، جلد 2، صفحہ 85


اس سفر سے سبق و عبرت:

  1. صبر و استقامت:

    • اس واقعے میں رسول اللہ ﷺ کی صبر کی عظیم مثال ہے۔ آپ ﷺ نے ظلم کے باوجود بددعا نہیں دی، بلکہ رحمت کی دعا فرمائی۔

  2. اللہ پر توکل:

    • جب انسان کی ساری کوششیں ناکام ہو جائیں، تو اللہ ہی اس کا اصل سہارا ہے۔

  3. مقصد کی بلندی:

    • اس سفر کے بعد اللہ نے آپ ﷺ کو معراج کی سعادت سے نوازا، جہاں آپ کو تسلی دی گئی۔

  4. ثقیف کی بعد میں توبہ:

    • دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں قبیلہ ثقیف اسلام لے آیا اور وہ اسلام کے بڑے محافظ بنے۔

نتیجہ

حضرت محمد کی زندگی کا یہ مرحلہ بظاہر آزمائشوں سے بھرپور تھا، لیکن اسی میں صبر، حکمت اور دعوت کی عظیم مثالیں چھپی ہوئی تھیں۔ طائف کا یہ سفر بعد ازاں مدینہ کی کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

Join Us on Social Media

عام الحزن | حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالبؑ کا وصال

عام الحزن

تاریخ اسلام کا ایک دردناک باب "عام الحزن” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ سال تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کو دو ایسے عظیم سہاروں کا غم ایک ساتھ سہنا پڑا جنہوں نے آپ ﷺ کی نبوت کے ابتدائی برسوں میں غیر معمولی کردار ادا کیا — حضرت ابو طالبؑ اور حضرت خدیجہؓ۔


✦ حضرت ابو طالبؑ کی وفات:

حضرت ابو طالبؑ، رسول اللہ ﷺ کے چچا، سرپرست، اور آپ ﷺ کے ابتدائی محافظ تھے۔ انہوں نے قریش کے دباؤ کے باوجود، پوری زندگی آپ ﷺ کی حفاظت اور حمایت کی۔

جب قریش نے آپ ﷺ کی دعوت کو روکنے کی کوشش کی، تو ابو طالبؑ نے انہیں واضح طور پر کہا:

"جب تک ابو طالب زندہ ہے، محمد ﷺ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔”

لیکن عام الحزن کے آغاز میں ہی ابو طالبؑ وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے بعد قریش نے نبی ﷺ پر ظلم و ستم مزید بڑھا دیا کیونکہ اب وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ کا دنیاوی محافظ دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔


✦ حضرت خدیجہؓ کا وصال:

کچھ ہی مہینوں بعد، رسول اللہ ﷺ کی زوجہ، حضرت خدیجہؓ، بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ وہ اسلام کی سب سے پہلی خاتون مومنہ تھیں، جنہوں نے نہ صرف ایمان لایا بلکہ اپنی دولت، محبت، مشورہ، اور مکمل سپورٹ رسول اللہ ﷺ کے مشن پر قربان کر دی۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

"خدیجہؓ نے اس وقت مجھ پر ایمان لایا جب لوگ انکار کر رہے تھے، اس نے اس وقت میرا ساتھ دیا جب سب نے مجھے ٹھکرا دیا۔”

حضرت خدیجہؓ کا وصال نبی ﷺ کے لیے ایک جذباتی زلزلہ تھا، جس نے آپ کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔


✦ عام الحزن کیوں کہا جاتا ہے؟

چونکہ حضرت ابو طالبؑ اور حضرت خدیجہؓ دونوں کی وفات ایک ہی سال میں ہوئی، اس سال کو رسول اللہ ﷺ نے خود "عام الحزن” یعنی "غم کا سال” قرار دیا۔ اس سال میں رسول اللہ ﷺ نہ صرف اپنے دو عظیم سہاروں سے محروم ہوئے، بلکہ قریش کے ظلم میں بھی اضافہ ہو گیا۔

یہ وہ سال تھا جب آپ ﷺ نے طائف کا سفر کیا، مگر وہاں آپ کو پتھر مارے گئے، آپ کا خون بہا، اور آپ کو شدید اذیت دی گئی۔ طائف کا واقعہ عام الحزن کی غم ناکی کو مزید بڑھا گیا۔


✦ نتیجہ:

عام الحزن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نبوت کی راہ صرف معجزات اور کامیابیوں کی کہانی نہیں بلکہ صبر، تکلیف، تنہائی، اور مسلسل آزمائشوں سے بھی بھری ہوئی ہے۔ حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالبؑ جیسے عظیم افراد کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی قربانیوں کے بغیر ابتدائی اسلام کی جدوجہد مکمل نہ ہوتی۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

حضور ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ کا قبول اسلام

حضور

حضور کے چچا حضرت حمزہؓ کا قبول اسلام ایک ایسا واقعہ ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے بلکہ مکہ میں اسلام کی دعوت کو ایک نئی جرات اور استقامت عطا کی۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا تھے اور عمر میں تقریباً ہم عمر۔ آپؓ کا مزاج بہادری، غیرت، اور حق پسندی سے بھرپور تھا۔

تمہید

اسلام کے ابتدائی دور میں جن عظیم شخصیات نے دین حق کے لیے اپنی جان و مال قربان کیں، ان میں ایک روشن نام حضرت حمزہؓ کا ہے۔ حضرت حمزہؓ نہ صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے بلکہ آپ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ ان کا اسلام میں داخل ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس نے مکہ کے سیاسی اور دینی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا۔


حضرت حمزہؓ کا خاندانی تعارف

حضرت حمزہؓ کا پورا نام حمزہ بن عبدالمطلب تھا۔ آپ قریش کے معزز سردار عبدالمطلب کے بیٹے تھے اور اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سگے چچا۔ حضرت حمزہؓ اور حضور اکرمؐ میں صرف چند برس کا فرق تھا، اسی لیے بچپن میں دونوں ساتھ کھیلتے، شکار کرتے اور قریبی تعلق رکھتے تھے۔

رضاعی بھائی

ایک اور انوکھی بات یہ ہے کہ حضرت حمزہؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ثُویبہ نامی دایہ کا دودھ پیا، جو ابو لہب کی باندی تھیں۔ اس طرح آپ دونوں رضاعی بھائی بھی تھے۔ یہ رشتہ محبت، اعتماد اور انس کا عکاس تھا۔


حضرت حمزہؓ کا قبولِ اسلام

واقعہ ابو جہل

حضرت حمزہؓ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ ایک دن ابو جہل نے خانہ کعبہ کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت الفاظ میں گالیاں دیں اور توہین کی۔ حضورؐ خاموشی سے واپس چلے گئے۔ جب حضرت حمزہؓ کو یہ خبر ملی — اُس وقت وہ شکار سے واپس آ رہے تھے — تو وہ غصے میں بھر گئے۔

انہوں نے سیدھا جا کر ابو جہل کو حرم میں سب کے سامنے مارا اور فرمایا:
"کیا تم محمدؐ کو گالیاں دیتے ہو؟ تو سن! میں بھی ان کے دین پر ہوں، اگر سچا ہے تو میرے ساتھ بھی لڑ!”

اسی وقت حضرت حمزہؓ نے اسلام قبول کر لیا، حالانکہ وہ اس وقت تک مکمل طور پر دین اسلام کی تعلیمات سے واقف نہ تھے۔


حضرت حمزہؓ کی بہادری اور اسلام میں کردار

اسلام کا پہلا محافظ

حضرت حمزہؓ کی اسلام میں شمولیت سے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھ گیا۔ قریش بھی حیران رہ گئے کہ بنو عبدالمطلب کے اتنے بااثر شخص نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت حمزہؓ نے نہ صرف قبولِ اسلام کیا بلکہ اسلام کے پہلے مسلح محافظ بن کر دشمنانِ اسلام کو للکارا۔

غزوہ بدر میں کردار

غزوہ بدر میں حضرت حمزہؓ نے مثالی شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کئی بڑے قریشی سرداروں کو جہنم واصل کیا اور مسلمانوں کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی تلوار دشمنوں کے دل دہلا دیتی تھی۔


حضرت حمزہؓ کی شہادت

غزوہ اُحد کا المناک دن

3 ہجری میں جب غزوہ اُحد پیش آیا، تو حضرت حمزہؓ نے ایک بار پھر اپنی شجاعت کا لوہا منوایا۔ وہ دشمن کی صفوں میں گھس کر لڑتے رہے۔ مگر بدقسمتی سے وحشی بن حرب نامی حبشی غلام نے ایک نیزہ پھینک کر آپؓ کو شہید کر دیا۔

ہندہ بنت عتبہ کا ظلم

حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد قریش کی ایک عورت ہندہ بنت عتبہ نے ان کے جسم کے ساتھ بے حرمتی کی اور ان کا کلیجہ نکال کر چبایا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے انتہائی دلخراش تھا۔


حضورؐ کا حضرت حمزہؓ سے تعلق

محبت اور قربت

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حمزہؓ سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپ کی شہادت پر حضورؐ اتنے غمزدہ ہوئے کہ روتے روتے بے حال ہو گئے۔ آپ نے فرمایا:
"حمزہؓ جیسا چچا کسی کو نہ ملا۔”

"سید الشہداء” کا لقب

حضورؐ نے حضرت حمزہؓ کو "سید الشہداء” یعنی شہیدوں کا سردار کا لقب دیا۔ ان کی قربانی، دین کے لیے محبت اور بہادری ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہو گئی۔


نتیجہ

حضرت حمزہؓ کا اسلام لانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کا تعلق ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ رشتہ صرف نسب کا نہیں، ایمان اور وفاداری کا بھی ہوتا ہے۔ حضرت حمزہؓ نہ صرف چچا اور رضاعی بھائی تھے بلکہ اسلام کے ایسے جاں نثار تھے جن کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ ان کی زندگی، نوجوانوں کے لیے جرأت، ایمان، وفا اور قربانی کا کامل نمونہ ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

حضرت محمدﷺ کے ساتھ شعیب ابی طالب کا بائکاٹ

حضرت محمد

 حضرت محمد ﷺ کے دینی پیغام کو اُس وقت سب سے بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جب قریش نے شعبِ ابی طالب میں حضرت محمد ﷺ اور اُن کے ساتھیوں پر ایک منظم اور سخت سوشل بائیکاٹ مسلط کیا۔ قریش کی طرف سے تضحیک، دھمکیوں اور جسمانی اذیتوں کے بعد، اب معاملہ ایک منظم معاشی، سماجی اور انسانی بائیکاٹ تک پہنچ چکا تھا۔ یہ واقعہ بعثت کے ساتویں سال پیش آیا اور تقریباً تین سال جاری رہا۔


بائیکاٹ کی وجہ اور پس منظر

جب حضرت محمد ﷺ کا پیغام پھیلنے لگا، تو قریش کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ ان کا مذہبی اور معاشی غلبہ کمزور پڑ جائے گا۔ اسی لیے ابو جہل، ابو لہب، ولید بن مغیرہ اور دیگر قریشی سردار دارالندوہ میں جمع ہوئے اور حضرت محمد ﷺ کے قبیلے بنو ہاشم اور بنو مطلب پر بائیکاٹ مسلط کرنے کا معاہدہ کیا۔

معاہدے کی شرائط:

  • کوئی خرید و فروخت نہیں

  • نکاح یا رشتہ داری بند

  • سماجی تعلقات ممنوع

  • مالی امداد پر مکمل پابندی

یہ معاہدہ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کیا گیا۔ (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 403)


شعبِ ابی طالب کی زندگی

حضرت محمد ﷺ، حضرت ابو طالب، حضرت خدیجہؓ، حضرت علیؓ اور بنو ہاشم و بنو مطلب کے دیگر افراد کو شعبِ ابی طالب میں محصور کیا گیا۔

حالات زندگی:

  • اشیائے خور و نوش کی قلت: درختوں کے پتے، چمڑے اور جنگلی گھاس کھانے پر مجبور تھے۔ (البدایہ والنہایہ، جلد 3)

  • بچوں کی بھوک سے بلکنے کی آوازیں گونجتی تھیں۔

  • مکمل سماجی تنہائی: نہ کوئی ملاقات، نہ تجارت، نہ پیغام رسانی۔

  • مراقبت: اگر کوئی مدد کرنے کی کوشش کرتا تو اسے دھمکایا جاتا۔

حضرت خدیجہؓ نے اپنی ساری دولت اسی راہ میں خرچ کر دی، جس کے نتیجے میں ان کی صحت خراب ہو گئی اور وہ جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔


خفیہ مددگار

چند مکہ کے نرم دل افراد نے پوشیدہ طور پر مدد فراہم کرنے کی کوشش کی:

  • حکیم بن حزام (حضرت خدیجہ کے بھتیجے) خوراک چپکے سے پہنچاتے تھے۔

  • ہشام بن عمر، زہیر بن ابی امیہ، مطعم بن عدی اور ابو البختری نے بعد میں اس معاہدے کے خاتمے میں کردار ادا کیا۔ (دلائل النبوۃ، بیہقی، جلد 2)


معجزہ: معاہدے کا کھایا جانا

جب قریش کے کچھ افراد نے ظلم پر ندامت ظاہر کی تو معاہدے کو ختم کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت ابو طالب نے قریش کو بتایا کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیڑوں کو معاہدہ چٹوا دیا ہے، صرف "بسم اللہ” باقی رہ گئی ہے۔

جب معاہدہ چیک کیا گیا تو وہ مکمل چٹ چکا تھا، اور صرف "بسمک اللھم” باقی تھی۔ (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 407)


جسمانی و روحانی اثرات

بائیکاٹ کے خاتمے کے باوجود اس کے اثرات گہرے تھے:

  • حضرت خدیجہؓ کی وفات ہو گئی۔

  • حضرت ابو طالب بھی دنیا سے رخصت ہو گئے، اور حضرت محمد ﷺ کھلی دشمنی کا نشانہ بننے لگے۔

  • اسی سال کو عام الحزن (غم کا سال) کہا جاتا ہے۔


روحانی پیغام اور اسباق

اس بائیکاٹ نے چند اہم اسباق دیے:

  • حضرت محمد ﷺ کے دینی پیغام پر ایمان رکھنے والے ڈٹے رہے۔

  • حضرت محمد ﷺ نے بے مثال صبر، تحمل اور اللہ پر بھروسا دکھایا۔

  • ظلم کے خلاف مزاحمت اور سچائی پر استقامت ایمان کی اصل بنیاد ہے۔


نتیجہ

شعبِ ابی طالب کا بائیکاٹ صرف ایک جسمانی آزمائش نہ تھی، بلکہ روحانی امتحان بھی تھا۔ ان مصائب نے مسلمانوں کی قربانی، اتحاد اور حوصلے کو بے مثال بنا دیا۔ حضرت محمد ﷺ نے سخت ترین حالات میں بھی اسلام کے دینی پیغام کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا، جو اسلام کے عروج کی بنیاد بن گیا۔


ماخذ و حوالہ جات

• سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 403-407
• البدایہ والنہایہ – ابن کثیر، جلد 3
• دلائل النبوۃ – امام بیہقی، جلد 2
• قرآن مجید

Join Us on Social Media

رسول اللہ ﷺ سےقریش کی مخالفت

رسول اللہ

 رسول اللہ ﷺ کو قریشِ مکہ کی شدید مخالفت، طعن و تشنیع، اور جسمانی و ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ ﷺ کا پیغام توحید، عدل، مساوات اور بت پرستی کی نفی پر مبنی تھا، جس نے عرب کے سرداروں کو چیلنج کیا۔ وہ اپنے آبائی مذہب، بتوں کی پوجا، اور تجارتی مفادات سے جُڑے نظام کو خطرے میں محسوس کرنے لگے۔

قریش کا ابتدائی ردِعمل

قریش کے سرداروں نے ابتدا میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اسے نظرانداز کیا، مگر جب اسلام کا پیغام آہستہ آہستہ مکہ کے مختلف طبقات، خصوصاً غلاموں، نوجوانوں اور معاشرے کے کمزور افراد تک پہنچا اور وہ دینِ اسلام کو قبول کرنے لگے، تو سردارانِ قریش کی غیرت اور ان کے سماجی، سیاسی و معاشی مفادات کو زک پہنچی۔

قرآن مجید میں ان کے ردعمل کی تصویر یوں پیش کی گئی ہے:

"اور وہ کہتے ہیں: یہ جادوگر ہے، جھوٹا ہے۔ کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک معبود بنا دیا؟ بیشک یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔” (سورۃ ص، آیت 4-5)

طعن و تشنیع کے مختلف انداز

1. زبان سے اذیت دینا

  • (الذاریات: 39، الطور: 29) رسول اللہ ﷺ کو "مجنون”، "ساحر”، "کاہن” اور "شاعر” کہہ کر توہین کی گئی۔
    • (سورۃ الأنفال: 31) قرآن کے پاکیزہ الفاظ کو "پرانے لوگوں کی کہانیاں” کہا گیا۔
    • (حم السجدہ: 26) مشرکین نے ایک دوسرے سے کہا: "اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے دوران شور مچاؤ۔”

2. معاشرتی بائیکاٹ

  • رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کو قبیلوی و خاندانی تعلقات سے منقطع کر دیا گیا۔
    • ان پر معاشی، تجارتی اور نکاح کے راستے بند کیے گئے۔ (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 375)

3. جسمانی اذیتیں

  • رسول اللہ ﷺ کے سجدے کے دوران اونٹ کی اوجھ آپ کے پشت پر ڈال دی گئی۔ (صحیح بخاری، حدیث: 240)
    • راستے میں کانٹے بچھا کر اذیت دی گئی، آپ ﷺ پر گندگی پھینکی گئی۔
    • حضرت ابوبکرؓ نے جب ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کو بچانے کی کوشش کی تو اُن پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ بیہوش ہو گئے۔ (البدایہ والنہایہ، جلد 3، صفحہ 29)

ابو جہل، ابو لہب اور دیگر سرداروں کا کردار

ابو لہب

  • نبی کریم ﷺ کا چچا ہونے کے باوجود اسلام کا بدترین دشمن بن گیا۔
    • اللہ تعالیٰ نے سورۃ المسد میں اس کی مذمت کی:

"تبّت یدا ابی لہب و تب…” (سورۃ المسد: 1)
• اس کی بیوی اُم جمیل کانٹے بچھا کر نبی ﷺ کو اذیت پہنچاتی تھی۔ (تفسیر ابن کثیر)

ابو جہل

  • مکہ کا سب سے مغرور سردار، بار بار نبی ﷺ کے قتل کی سازش کرتا رہا۔
    • غزوہ بدر میں قتل ہوا۔ (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 230)

دیگر مشرکین

  • ولید بن مغیرہ: قرآن کو جادو قرار دیا۔ (سورۃ المدثر: 24-25)
    • عاص بن وائل، عقبہ بن ابی معیط: نبی ﷺ پر تھوکتے، مذاق اُڑاتے۔ (دلائل النبوۃ، بیہقی، جلد 2، صفحہ 191)

رسول اللہ ﷺ کو پیش کشیں

قریش کے سرداروں نے رسول اللہ ﷺ کو خاموش کرانے کے لیے دنیاوی مراعات کی پیشکش کی:

  • مکہ کی سرداری
    • مال و دولت
    • جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے طبیب

مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دیں، تب بھی میں اللہ کے پیغام کی تبلیغ سے باز نہ آؤں گا۔” (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 293)

صحابہ کرامؓ پر مظالم

  • حضرت بلال حبشیؓ کو دہکتے سورج میں ریت پر لٹایا گیا، سینے پر پتھر رکھا گیا۔ (الاصابہ، جلد 1، صفحہ 169)
    • حضرت یاسرؓ اور حضرت سمیہؓ کو شہید کیا گیا — سمیہؓ اسلام کی پہلی شہیدہ تھیں۔ (الاستیعاب، جلد 4، صفحہ 1806)
    • حضرت خبابؓ بن الارت کو دہکتے کوئلوں پر لٹایا گیا۔ (صحیح بخاری، حدیث: 3855)

رسول اللہ ﷺ کا ردِعمل: صبر، دعا اور حکمت

آپ ﷺ نے کبھی بدلہ نہ لیا، بلکہ صبر، اخلاق، اور دعاؤں سے کام لیا۔

ایک موقع پر فرمایا:

"اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، یہ لوگ جانتے نہیں۔” (صحیح مسلم، حدیث: 1792)

نتائج و اثرات

قریش کی مخالفت جتنی بڑھی، اسلام اتنا ہی پھیلتا گیا۔ کمزور طبقات میں اسلام نے نئی روح پھونکی۔ رسول اللہ ﷺ کے حسنِ اخلاق، صبر، اور سچائی نے دل جیت لیے۔

قرآن مجید میں فرمایا گیا:

"اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔” (الانبیاء: 107)

حوالہ جات:

صحیح بخاری: حدیث 240، 3855
• صحیح مسلم: حدیث 1792
• سیرت ابن ہشام: جلد 1 و 2
• البدایہ والنہایہ: ابن کثیر، جلد 3
• دلائل النبوۃ: بیہقی، جلد 2
• الاصابہ: ابن حجر
• الاستیعاب: ابن عبدالبر
• تفسیر ابن کثیر
• قرآن مجید: سورۃ ص، الأنفال، السجدہ، المسد، المدثر، الانبیاء

نتیجہ

قریش کی یہ مخالفت محض زبانی یا وقتی نہ تھی بلکہ ایک باقاعدہ مہم تھی جس کا مقصد دعوتِ اسلام کو دبانا اور رسول اللہ ﷺ کو روکنا تھا۔ مگر نبی کریم ﷺ نے صبر، برداشت، اور حکمت کے ساتھ اس کا سامنا کیا۔ ان کی ثابت قدمی، دعائیں اور اخلاقیات آج بھی دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

نبی محمد ﷺ کا کوہِ صفا پر اعلانِ نبوت

محمد

محمد ﷺ کا پیغام اور نبوت کی روشنی

اسلامی انبیاءؑ نے مختلف ادوار میں انسانیت کو ہدایت دی، اور اسلام کا پیغام جو ابتدا میں خاموشی سے پھیلا، تین سال بعد ایک نئے اور جرات مندانہ مرحلے میں داخل ہوا: اسلام کی علانیہ دعوت۔ اس مرحلے پر، حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا کہ وہ کھل کر اپنے قبیلے اور اہل مکہ کو توحید کی دعوت دیں اور شرک کی نفی کریں۔ کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر آپ ﷺ کا یہ اعلان، اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا جو ہمیشہ کے لیے حق و باطل کی حد بندی بن گیا۔


اسلامی انبیاءؑ کو علانیہ دعوت کا حکم – نبی محمد ﷺ کی ذمہ داری

تین سال تک خفیہ دعوت دینے اور ایک مخلص گروہ تیار کرنے کے بعد، حضرت محمد ﷺ کو یہ واضح حکم دیا گیا:

"اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کریں۔” (الشعراء: 214)

یہ آیت صرف ایک حکم نہیں، بلکہ ایک انقلابی تبدیلی تھی۔ اسلامی انبیاءؑ کبھی خاموش مبلغ نہیں رہے؛ اُن کا فرض تھا کہ وہ سچائی کو کھل کر بیان کریں، چاہے اس کے لیے کتنی ہی مخالفت کیوں نہ جھیلنی پڑے۔ یہی کردار ہر نبی، ہر رسول اور خاص طور پر حضرت حضور ﷺ نے ادا کیا۔ نبی کریم ﷺ کو یہ حکم ایسے وقت میں ملا جب مکہ میں شرک اور بت پرستی کا غلبہ تھا، اور لوگوں کے دلوں میں سختی، قبائلی تعصب اور دنیا پرستی کی جڑیں گہری تھیں۔


کوہِ صفا – نبی محمد ﷺ کا تاریخی اعلانِ رسالت

حضرت محمد ﷺ، جو آخری نبی اور عظیم رسول ہیں، نے کوہِ صفا پر چڑھ کر، جو کہ مکہ میں اعلانِ عام کا مرکزی مقام تھا، اہل قریش کو بلند آواز سے پکارا۔ یہ ایک حکمت بھرا قدم تھا جو ہر قبیلے اور فرد تک پیغام پہنچانے کے لیے اٹھایا گیا۔ قریش اس مقام پر اپنے اہم فیصلے سننے اور اہم خبریں سننے کے عادی تھے۔ نبی ﷺ نے اسی روایت کو استعمال کرتے ہوئے دعوتِ حق کی بنیاد علانیہ رکھ دی۔

"اے بنی فہر! اے بنی عدی! اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے والا ہے، تو کیا تم میری بات مانو گے؟”

سب نے جواب دیا: "ہاں، ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔”

تب نبی ﷺ نے فرمایا:

"تو سنو! میں تمہیں ایک بڑے عذاب سے پہلے خبردار کر رہا ہوں۔ میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے واضح پیغام لے کر آیا ہوں۔ اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ۔”

یہ خطاب محض ایک تنبیہ نہیں تھا بلکہ ایک نئی روحانی جدوجہد کا آغاز تھا۔ نبی ﷺ نے کھلے عام توحید کا اعلان کیا، قیامت کی خبر دی، اور انسانوں کو جھوٹے معبودوں سے نجات دلانے کی طرف بلایا۔

اس اعلان کے موقع پر جن قریبی رشتہ داروں اور قبائل کو دعوت دی گئی ان میں درج ذیل افراد شامل تھے:

  • حضرت علیؓ (اس وقت سب سے کم عمر مسلمان)

  • حضرت ابو طالب (نبی ﷺ کے چچا، جنہوں نے تحفظ فراہم کیا)

  • حضرت حمزہؓ (جو بعد میں ایمان لائے)

  • حضرت عباسؓ (چچا)

  • ابو لہب (جس نے سخت مخالفت کی)

  • بنی عبدالمطلب کے دیگر افراد

  • قریش کے تمام قبائل کے نمائندے

یہ وہ لوگ تھے جنہیں نبی محمد ﷺ نے سب سے پہلے جمع کر کے اسلام کی دعوت دی تاکہ وہ پہلے سچائی کو قبول کریں اور پھر معاشرے میں اسے پھیلائیں۔


قریش کا ردِعمل – محمد ﷺ اور مخالفت کا سامنا

یہ دعوت اہلِ مکہ کی روایات، رسم و رواج اور فخرِ قبیلہ پر کاری ضرب تھی۔ ان کی حیرانی غصے میں بدل گئی، خاص طور پر نبی کریم ﷺ کے چچا ابو لہب کا ردِعمل سب سے شدید تھا:

"تَبًّا لَكَ! أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟” (خاک ہو تیرا حال! کیا اسی لیے تُو نے ہمیں جمع کیا تھا؟)

اسی موقع پر سورۃ المسد نازل ہوئی، جو ابو لہب کی مذمت پر مبنی ہے۔ اس اعلان کے بعد قریش کی دشمنی کھل کر سامنے آ گئی۔ مسلمانوں کا مذاق اُڑایا جانے لگا، اُنہیں دھمکیاں دی گئیں، رشوت کی کوششیں ہوئیں اور کمزوروں پر ظلم و ستم کا آغاز ہو گیا۔

اہلِ قریش کو خدشہ لاحق ہو چکا تھا کہ یہ نبی ﷺ ان کے مذہبی نظام، ان کے اقتصادی مفادات اور قبائلی ساکھ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے وہ شدید ردعمل دینے لگے تاکہ اسلام کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔


نبی محمد ﷺ کی استقامت – ہر رسول کی سنت

اسلامی انبیاءؑ کی تاریخ صبر، حق گوئی اور استقلال کی تاریخ ہے، اور نبی اکرم محمد ﷺ اس میں سب سے نمایاں ہیں۔ آپ ﷺ نے جانتے ہوئے بھی کہ مخالفت کا سامنا ہو گا، اللہ کے حکم کی تعمیل کی۔ آپ کا پیغام کسی سیاسی مقصد کے لیے نہ تھا، بلکہ:

  • صرف ایک اللہ کی عبادت

  • ظلم، جبر اور استحصال کا خاتمہ

  • بت پرستی کی مخالفت

  • رحم، عدل، اور دیانت داری کی تعلیم

نبی ﷺ نے نہ تلوار اٹھائی، نہ اشتعال پھیلایا؛ آپ کی طاقت سچائی، کردار اور اخلاق میں تھی۔ یہی طرزِ عمل تمام نبیوں اور رسولوں کا خاصہ رہا ہے۔

آپ ﷺ نے ہر قسم کے طعن و تشنیع، سماجی بائیکاٹ، حتیٰ کہ جسمانی اذیتوں کا بھی صبر کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آپ کی دعوت میں محبت، ہمدردی اور اخلاص تھا جو ہر مخلص دل کو متاثر کرتا رہا۔


نبوی دعوت کے اثرات – محمد ﷺ کی علانیہ دعوت کا اثر

  1. حق و باطل کی لکیر کھنچ گئی: اب لوگ غیر جانبدار نہیں رہ سکتے تھے۔ یا حق یا باطل!

  2. اسلامی شناخت ابھری: مسلمانوں کی ایک الگ، نظریاتی جماعت وجود میں آئی۔

  3. مخالفت میں شدت: قریش نے اسلام کو خطرہ سمجھ کر ظلم و جبر تیز کر دیا۔

  4. دلوں میں ہلچل: کئی لوگ جو پہلے لاتعلق تھے، اب دلچسپی لینے لگے۔

  5. ایک عظیم میراث کی ابتدا: یہ اعلان وہ بیج تھا جس سے ایک عالمی تحریک نے جنم لیا۔

  6. دعوت کی وسعت: محمد ﷺ کی دعوت اب صرف قریش تک محدود نہ رہی، بلکہ دوسرے قبائل تک بھی پہنچنے لگی۔


نتیجہ – محمد ﷺ، نبی اور رسول کی مثال

کوہِ صفا پر نبی کریم ﷺ کا علانیہ اعلان، صرف ایک تقریر نہیں، بلکہ ایک عظیم انقلابی قدم تھا۔ یہ لمحہ نہ صرف حضرت محمد ﷺ کی زندگی بلکہ تمام اسلامی انبیاءؑ اور رسولوں کی جدوجہد کا عکاس تھا۔

یہ اعلان، جس میں صرف اللہ کی بندگی کی دعوت تھی، نے دنیا کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ حضرت محمد ﷺ، تمام نبیوں میں خاتم النبیین بنے، اور آپ ﷺ کا یہ کھلا پیغام آج بھی اربوں دلوں کو روشنی دیتا ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

حضرت محمدﷺدعوتِ اسلام کا خفیہ مرحلہ

حضرت محمد

حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں جنہوں نے انسانیت کو گمراہی سے نکال کر توحید، عدل اور رحم کا پیغام دیا۔ اس مضمون میں ہم صرف اور صرف اس نبی کریم ﷺ کی اس حکمت بھرے دور پر بات کریں گے جب اسلام کی دعوت خفیہ طور پر دی گئی — یعنی دعوتِ اسلام کا خفیہ مرحلہ۔


خفیہ تبلیغ کا پس منظر

جب حضرت محمد ﷺ کو نبوت ملی تو مکہ میں بت پرستی، ظلم، طبقاتی فرق اور اخلاقی پستی عام تھی۔ ایسے ماحول میں کھلے عام حق کی بات کرنا نہایت خطرناک ہوتا۔ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم تھا کہ ابتدا میں دین کی دعوت صرف اُن لوگوں کو دی جائے جو قریب ہوں، بااعتماد ہوں، اور جن کے دل حق کی تلاش میں ہوں۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر خفیہ دعوت کا آغاز ہوا۔


خفیہ تبلیغ کی حکمتیں اور وجوہات

  1. قریش کی سخت مزاحمت سے بچاؤ: مکہ کے سردار اسلام کی تعلیمات کو اپنے اقتدار، مذہبی حیثیت اور مالی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ اگر ابتدا ہی میں دعوت علانیہ ہوتی تو شدید ردِعمل ہوتا۔

  2. ایمان لانے والوں کی حفاظت: ابتدائی مسلمان کمزور اور محدود تھے۔ ان کو ایمان کے ابتدائی تقاضے سکھانے اور ان کی تربیت کے لیے پرامن فضا ضروری تھی۔

  3. دعوت کا منظم آغاز: نبی کریم ﷺ چاہتے تھے کہ پہلے ایک ایسا گروہ تیار ہو جائے جو بعد میں اسلام کے پیغام کو آگے پھیلانے کے لیے مضبوط کردار ادا کرے۔

  4. قلبی اور ذہنی تربیت: اسلام صرف نعرہ نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اس کے لیے ایسے افراد کی ضرورت تھی جو علم، کردار، اور صبر میں مضبوط ہوں۔


خفیہ تبلیغ کا انداز

حضرت محمد ﷺ نے نہ کوئی جلسہ کیا، نہ منادی کی، نہ کسی قافلے کو روک کر اعلان کیا۔ بلکہ:

  • انفرادی ملاقاتیں کی گئیں

  • رات کے وقت گفتگو ہوتی

  • دارِ ارقم جیسے محفوظ مقامات پر اجتماع کیا جاتا

  • صرف ان افراد کو دعوت دی جاتی جن پر مکمل بھروسہ ہوتا

یہ سادہ مگر حکیمانہ انداز ہی وہ بنیاد بنی جس پر بعد میں اسلامی معاشرہ قائم ہوا۔


دارِ ارقم: خفیہ تبلیغ کا مرکز

حضرت محمد ﷺ نے صفا پہاڑی کے قریب ایک محفوظ مکان دارِ ارقم کو خفیہ تبلیغ کا مرکز بنایا۔ یہاں:

  • قرآن کی آیات کی تلاوت اور وضاحت کی جاتی

  • نماز سکھائی جاتی

  • سوالات کے جوابات دیے جاتے

  • صحابہؓ کو اخلاق، صبر، اور تبلیغ کے آداب سکھائے جاتے

یہ مقام اسلام کا پہلا تعلیمی و دعوتی مرکز تھا جہاں بغیر شور و شرابے کے، انقلاب کی تربیت ہو رہی تھی۔


ابتدائی مسلمانوں کی استقامت

خفیہ تبلیغ کے دوران ایمان لانے والوں کو آزمائشوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

  • حضرت خدیجہؓ نے نبی کریم ﷺ کی دل و جان سے حمایت کی

  • حضرت علیؓ نے بچپن میں ہی سچائی قبول کی

  • حضرت ابوبکرؓ کے ذریعے کئی اہم افراد مسلمان ہوئے

  • حضرت بلالؓ، حضرت یاسرؓ، اور حضرت سمیہؓ جیسے افراد نے اسلام کے لیے ظلم سہے

ان سب کی قربانیاں خفیہ دعوت کی کامیابی کی علامت بنیں۔


قریش کی نگرانی اور دباؤ

اگرچہ یہ دعوت خفیہ تھی، لیکن قریش نے اس کی سرسری خبریں حاصل کر لی تھیں۔ انہوں نے:

  • مجلسوں میں جاسوس بھیجنے شروع کیے

  • نوجوانوں کو ڈرایا، دبایا

  • غلاموں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا

  • نئے مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کیا

لیکن نبی ﷺ نے ہر موقع پر صبر، دعا، اور حکمت سے کام لیا۔ نہ انتقام لیا، نہ سختی کی، بلکہ دعوت کا عمل خاموشی اور اخلاق کے ذریعے جاری رکھا۔


خفیہ تبلیغ کا اثر

  • ایک مضبوط، تربیت یافتہ، اور مخلص جماعت تیار ہوئی

  • قرآن کی ابتدائی آیات قلوب میں راسخ ہوئیں

  • مسلمانوں میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہوا

  • لوگ شخصیت، کردار، اور سچائی سے متاثر ہو کر ایمان لاتے

یہ وہی جماعت تھی جس نے بعد میں میدانِ بدر، احد، اور ہجرت جیسے بڑے امتحانات میں اسلام کا جھنڈا بلند رکھا۔


نتیجہ

دعوتِ اسلام کا خفیہ مرحلہ محض تین سالہ خاموش دور نہیں، بلکہ یہ اسلام کی فکری، اخلاقی، اور تنظیمی بنیادوں کا سنہری دور تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے صبر، حکمت، اور اخلاق کے ذریعے وہ بیج بویا جس سے ایک عالمی پیغام پھوٹا۔ آج اگر ہم دینِ اسلام کے فروغ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی جڑیں انہی خاموش قدموں سے مضبوط ہوئیں جنہیں "خفیہ تبلیغ” کہا جاتا ہے۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔

اعلانِ نبوت | حضرت محمد ﷺ کی روشنی سے لبریز ابتدا

حضرت محمد

حضرت محمد ﷺ کو نبوت کا اعزاز

حضرت محمد ﷺ، تمام انبیاء کرام میں سب سے آخری اور کامل ترین رسول بن کر آئے۔ جب آپ ﷺ چالیس برس کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول اللہ کے منصب پر فائز فرمایا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے دنیا کی روحانی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

آپ ﷺ کا یہ مشن نہ صرف عرب بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھا۔ آپ ﷺ کی سیرت کا ہر پہلو ہدایت کا روشن چراغ ہے۔ نبوت کا آغاز درحقیقت وہ دروازہ تھا جس سے اللہ کا آخری پیغام دنیا میں داخل ہوا۔


اعلانِ نبوت سے پہلے کا پس منظر

حضرت محمد ﷺ سے پہلے بہت سے انبیاء آئے جنہوں نے اپنی قوم کو توحید، عدل، صداقت، اور نیکی کی دعوت دی۔ ان میں حضرت آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام شامل ہیں۔ ہر نبی نے اپنی قوم کو گمراہی سے نکالنے کی کوشش کی، مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کے پیغامات میں تحریف ہو گئی۔

حضرت محمد ﷺ کو ان تمام پیغامات کی تصدیق اور تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔ آپ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی، قرآن مجید، قیامت تک محفوظ ہے اور ہر دور کے انسان کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔


غارِ حرا میں پہلی وحی کا نزول

مکہ مکرمہ میں جہالت، ظلم، شرک، اور ناانصافی کا دور دورہ تھا۔ لوگ پتھروں کو معبود مانتے، بچیوں کو زندہ دفن کرتے، کمزوروں کو ظلم کا نشانہ بناتے۔

ان حالات میں حضرت محمد ﷺ کا دل ان تمام خرابیوں سے بیزار تھا۔ آپ ﷺ اکثر غارِ حرا میں جا کر دن رات عبادت کرتے، غور و فکر کرتے، اور سچائی کی تلاش میں رہتے۔

ایک رات رمضان المبارک کے مہینے میں، جب آپ ﷺ غارِ حرا میں عبادت کر رہے تھے، اچانک فرشتہ جبرائیلؑ آپ کے سامنے آئے۔ انہوں نے کہا:

اقْرَأْ! (پڑھ!)

آپ ﷺ نے فرمایا:

"میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔”

تین بار کے بعد حضرت جبرائیلؑ نے سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات نازل فرمائیں:

"پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا…”

یہی وہ لمحہ تھا جب حضرت محمد ﷺ کو رسول اللہ کے لقب سے نوازا گیا۔ یہ وحی نہ صرف آپ ﷺ کے لیے ایک انقلابی تبدیلی تھی، بلکہ پوری انسانیت کے لیے نجات کا دروازہ۔


گھریلو تعاون اور ابتدائی ایمان والے

وحی کے بعد آپ ﷺ بہت زیادہ پریشان تھے۔ آپ ﷺ گھر واپس آئے اور فرمایا:

"مجھے چادر اوڑھاؤ، مجھے چادر اوڑھاؤ۔”

حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف آپ ﷺ کو تسلی دی بلکہ آپ ﷺ کے نبوت کے مقام کو بھی تسلیم کیا۔ وہ پہلی ایمان لانے والی خاتون بنیں۔

پھر وہ آپ ﷺ کو اپنے چچازاد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو کہ ایک عیسائی عالم تھے۔ انہوں نے سارا واقعہ سن کر کہا:

"یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوتا تھا۔ کاش میں اس وقت زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے۔”

ابتدائی ایمان لانے والوں کی فہرست:

  • حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ

  • حضرت علی بن ابی طالبؓ (10 سال کی عمر میں)

  • حضرت زید بن حارثہؓ

  • حضرت ابوبکر صدیقؓ

ابوبکر صدیقؓ کی دعوت پر عثمان بن عفانؓ، زبیر بن عوامؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور دیگر کئی لوگ اسلام لائے۔


دعوتِ دین کا خفیہ آغاز

پہلے تین سال رسول اللہ ﷺ نے دعوت کو خفیہ رکھا۔ آپ ﷺ صرف اپنے قریبی، بااعتماد اور مخلص لوگوں کو دعوت دیتے۔ آپ ﷺ ان کے ساتھ دارِ ارقم میں چھپ کر عبادت اور تعلیمات دیتے۔

اس دور میں:

  • قرآن کے ابتدائی اسباق سکھائے گئے

  • ایمان، صبر، اور توحید کا شعور بیدار کیا گیا

  • مسلمانوں کی روحانی تربیت کی گئی


کھلم کھلا اعلانِ نبوت

تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا:

"پس آپ واضح طور پر اس بات کا اعلان کریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔” (الحجر: 94)

حضرت محمد ﷺ نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے تمام قبائل کو بلایا اور فرمایا:

"اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر آ رہا ہے، تو کیا آپ میری بات مانیں گے؟”

سب نے کہا:

"یقیناً، کیونکہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔”

تب آپ ﷺ نے فرمایا:

"میں آپ کو ایک سخت عذاب سے پہلے خبردار کرنے والا ہوں۔”

مگر آپ کے چچا ابو لہب نے اعتراض کیا اور گستاخی کی، جس پر سورۃ:

"تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ…” نازل ہوئی۔


مکہ میں مخالفت اور ثابت قدمی

جب دین اسلام پھیلنے لگا تو مشرکینِ مکہ نے اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی:

  • دولت، طاقت، اور حکومت کی پیشکش

  • مسلمانوں پر تشدد اور ظلم

  • سوشل بائیکاٹ (شعبِ ابی طالب)

  • کردار کشی، جھوٹے الزامات، اور قتل کی سازشیں

مگر رسول اللہ ﷺ نے کبھی ہار نہیں مانی۔ آپ ﷺ کا فرمان:

"اگر وہ سورج میرے دائیں اور چاند میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں، تب بھی میں اس دین کی دعوت سے باز نہیں آؤں گا۔”

یہ استقامت ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔


حضرت محمد ﷺ کی سیرت سے سیکھنے والے اسباق

  • سچائی اور حق کی راہ پر چلنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا

  • اللہ اپنے مخلص بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا

  • قربانی اور صبر ہمیشہ رنگ لاتے ہیں

  • کمزور اور مظلوم کی مدد کرنا نبیوں کی سنت ہے

  • رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو رہنمائی کا ذریعہ ہے


نتیجہ: رسول اللہ ﷺ – انسانیت کی آخری روشنی

اعلانِ نبوت وہ تاریخی لمحہ تھا جب آسمان سے زمین پر اللہ کی روشنی نازل ہوئی۔ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں جن کی سیرت قیامت تک کے لیے انسانیت کی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم آپ ﷺ کی زندگی سے سبق حاصل کریں، اپنی زندگیوں میں روشنی لائیں، اور یہ پیغام دنیا بھر تک پہنچائیں۔

ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کریں۔