بیعت عقبہ ثانیہ کا مکمل واقعہ
آیت:
وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ
ترجمہ: "اور نصیحت کرتے رہیے، بیشک نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔” (سورۃ الذاریات: 55)
تیرہویں نبوی سال کا واقعہ ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسلمان انتہائی کٹھن دور سے گزر رہے تھے۔ کفار قریش کے مظالم اپنے عروج پر تھے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نئی امید کی کرن دکھائی۔ مدینہ منورہ کے انصار نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔ یہ واقعہ تاریخ اسلام کا ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔
بیعت عقبہ اولیٰ: بنیادیں رکھی جانے والی ہیں
بارہویں نبوی میں پہلی بیعت ہوئی جس میں مدینہ کے بارہ افراد شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ بھیجا جو وہاں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ ان کی کوششوں سے مدینہ کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
حدیث:
"بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ"
ترجمہ: "میں آسان حنیفیت (اسلام) لے کر بھیجا گیا ہوں۔” (صحیح البخاری)
مدینہ منورہ کا مذہبی اور سماجی پس منظر
مدینہ میں بنو اوس اور بنو خزرج کے درمیان صدیوں پرانا قبائلی تنازع موجود تھا۔ یہودیوں کی اکثریت تھی جو ایک مسیحا کے انتظار میں تھے۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں سنا تو وہ آپ کو پہچان گئے، لیکن حسد کی وجہ سے انہوں نے اسلام قبول نہ کیا۔
آیت:
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
ترجمہ: "اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک کتاب آئی جو ان کے پاس موجود (کتاب) کی تصدیق کرنے والی تھی، حالانکہ وہ اس سے پہلے کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے، پھر جب وہ چیز آ گئی جسے وہ پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔” (سورۃ البقرہ: 89)
بارہ نقیبوں کے اسماء گرامی اور سیرتی خاکے
بیعت عقبہ ثانیہ میں بارہ نقیبوں کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہ جری اور باکردار افراد تھے جنہیں ان کے قبیلوں کی نمائندگی اور بعد میں نگرانی کے لیے منتخب کیا گیا۔
- حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو النجار
- کنیت: ابو امامہ
- فضیلت: پہلے انصاری صحابی
- حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو الحارث
- شہادت: جنگ احد
- حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو الحارث
- فضیلت: شاعر رسول
- حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو زریق
- عمر: کم سن صحابی
- حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو سلمہ
- فضیلت: قبلہ رو ہو کر وفات پائی
- حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو سلمہ
- والد: حضرت جابر بن عبداللہ
- حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو عوف
- فضیلت: قاری قرآن
- حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو ساعدہ
- کنیت: ابو ثابت
- حضرت منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو ساعدہ
- لقب: الشہید
- حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو عبد الاشہل
- فضیلت: کاتب وحی
- حضرت سعد بن خثیمہ رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو عمرو بن عوف
- شہادت: جنگ احد
- حضرت ابو الہیثم بن التیہان رضی اللہ عنہ
- قبیلہ: بنو عبد الاشہل
- فضیلت: میزبان رسول
عمرو بن الجموح کا واقعہ: بت شکنی سے توحید تک کا سفر
عمرو بن الجموح قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔ ان کا ایک بڑا بت "مناف” تھا جس کی وہ بہت تعظیم کرتے۔ ان کے بیٹے معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما نے اسلام قبول کیا تو وہ راتوں کو آ کر بت کو گرا دیتے۔
ایک رات ان نوجوانوں نے بت کو اٹھا کر مدینہ کے گندے کنویں میں پھینک دیا۔ صبح عمرو بن الجموح نے بت کو نہ پایا تو بہت پریشان ہوئے۔ جب انہوں نے کنویں میں دیکھا تو پکار اٹھے: "افسوس! تو اپنی حفاظت خود نہیں کر سکا، تو پھر میری کیسے کرے گا؟”
اس واقعہ کے بعد ان کے دل میں اسلام کی حقانیت جاگزیں ہوئی اور وہ مشرف باسلام ہوئے۔
آیت:
وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فَبَشِّرْ عِبَادِ
ترجمہ: "اور جنہوں نے طاغوت (بتوں) کی عبادت سے پرہیز کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا، ان کے لیے خوشخبری ہے، پس آپ میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔” (سورۃ الزمر: 17)
عقبہ ثانیہ کی رات
ذی الحجہ 13 نبوی کی رات تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا حضرت عباس کے ہمراہ مقام عقبہ پر تشریف لائے۔ انصار کے 73 مرد اور 2 خواتین موجود تھیں۔
حضرت عباس بن عبدالمطلب نے کہا: "اے قوم خزرج! محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں عزت والے ہیں۔ اگر تم ان کی حفاظت کرو گے تو ٹھیک، ورنہ ابھی سے معاملہ ختم کر دو۔”
انصار کے سردار براء بن معرور نے کہا: "ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے جیسے اپنی جانوں کی کرتے ہیں۔”
حدیث:
"أَنْتُمْ كَفَيلٌ عَلَى قَوْمِكُمْ بِمَا فِي هَذَا البَيْعَةِ، كَكَفَالَةِ الحَوَارِيِّينَ لِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَأَنَا كَفِيلٌ عَلَى قَوْمِي"
ترجمہ: "تم اپنی قوم کے ذمہ دار ہو اس بیعت میں جو کچھ ہے، جیسے حواری حضرت عیسیٰ ابن مریم کے ذمہ دار تھے، اور میں اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں۔” (سیرت ابن ہشام)
. شرائط بیعت: ایک اسلامی معاشرے کا اولین آئین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تُبَايِعُونِي عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي النَّشَاطِ وَالْكَسَلِ، وَالنَّفَقَةِ فِي العُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَعَلَى الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ المُنْكَرِ، وَأَنْ تَقُولُوا فِي اللَّهِ لا تَأْخُذُكُمْ فِيهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ، وَعَلَى أَنْ تَنْصُرُونِي إِذَا قَدِمْتُ عَلَيْكُمْ، وَتَمْنَعُونِي مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْهُ أَنْفُسَكُمْ وَأَزْوَاجَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ، وَلَكُمُ الجَنَّةُ"
ترجمہ: "تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ حالتِ نشاط اور کسل (آرام اور تھکاوٹ) دونوں میں میری سنو گے اور مانو گے، تنگی اور آسانی دونوں میں (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو گے، نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے، اور اللہ (کے دین) کے معاملے میں (حق بات) کہو گے، تمہیں کوئی ملامت کرنے والا (کسی کی ملامت) اس میں روک نہ سکے گی، اور اس پر کہ جب میں تمہارے پاس آؤں تو میری مدد کرو گے، اور میری اس طرح حفاظت کرو گے جیسے اپنی، اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی حفاظت کرتے ہو، اور تمہارے لیے جنت ہے۔” (سنن النسائی)
قریش کی مخالفت: ایک طاغوتی نظام کا ردعمل
صبح ہوتے ہی قریش کو خبر مل گئی۔ وہ انصار کے پاس پہنچے اور کہا: "اے قوم خزرج! ہمیں خبر ملی ہے کہ تم ہمارے آدمی سے مل کر ہمارے خلاف جنگ پر اکسا رہے ہو۔”
انصار میں سے ایک عقلمد شخص عبداللہ بن ابی بن سلول (جو بعد میں منافقین کا سردار بنا) موجود تھا۔ اس نے فوراً کہا: "یہ بات نہیں ہے، ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ یہ محض ایک معمولی ملاقات تھی۔” اس کے جواب سے قریش کا جوش تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا۔
آیت:
وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ
ترجمہ: "اور جب آپ انہیں دیکھیں تو ان کے جسم آپ کو تعجب میں ڈال دیں، اور اگر وہ بولے تو آپ ان کی بات سنیں، گویا وہ لکڑیاں ہیں جو (دیوار سے) ٹیک لگائے ہوئے ہیں، وہ ہر آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں، وہی دشمن ہیں، پس ان سے بچ کر رہیے، اللہ انہیں مارے، وہ کہاں بہکائے جا رہے ہیں۔” (سورۃ المنافقون: 4)
حاضرین عقبہ کے مکمل اسماء مبارکہ
بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تمام افراد کے اسماء مبارکہ درج ذیل ہیں:
- اسعد بن زرارہ
- سعد بن ربیع
- عبداللہ بن رواحہ
- رافع بن مالک
- براء بن معرور
- عبداللہ بن عمرو
- عبادہ بن صامت
- سعد بن عبادہ
- منذر بن عمرو
- اسید بن حضیر
- سعد بن خثیمہ
- ابو الہیثم بن التیہان
حکم جہاد کا نزول: مدینہ میں تبدیلی کی بنیادیں
آیت:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ
ترجمہ: "ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔” (سورۃ الحج: 39)
ہجرت مدینہ: انقلابی تحریک کا نیا باب
مسلمان خفیہ طور پر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إنی أریت دار ہجرتکم ذات نخل بین لابتین"
ترجمہ: "میں نے تمہارے ہجرت کے گھر کو دیکھا ہے، وہ کھجوروں والی زمین ہے جو دو پہاڑیوں کے درمیان ہے۔” (صحیح البخاری)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی داستان ہجرت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھلم کھلا اعلان کیا: "جو اپنی ماں کو روٹھانا چاہے، اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہے، وہ اس وادی کے پار ہمارا انتظار کرے۔”
- حدیث:
"إِنَّ اللَّهَ يَجْعَلَ الحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ"
ترجمہ: "بے شک اللہ تعالیٰ عمر کی زبان اور ان کے دل پر حق (کی بات) جاری فرماتا ہے۔” (سنن الترمذي)
ہشام بن العاص کی طرف عمری خط: ایک تاریخی دستاویز
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خط لکھا:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اما بعد: بے شک زمین نے اپنے پروردگار کو ظاہر کر دیا ہے، سو تمہارے لیے زمین تنگ ہو گئی، تو تم اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہو۔ تمہارا بھائی عمر۔"
آیت:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ: "بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔” (سورۃ البقرہ: 218)
بیعت عقبہ کے سیاسی اور سماجی اثرات
بیعت عقبہ نے ایک نئی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ مدینہ منورہ میں:
- مسجد قبا کی تعمیر
- مواخات بین المہاجرین والانصار
- میثاق مدینہ کا اعلان
آیت:
وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
ترجمہ: "اور (انصار) وہ ہیں جنہوں نے اس دار (مدینہ) میں اور ایمان میں (مہاجرین سے) پہلے جگہ پائی، وہ ان لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جو ان کے پاس ہجرت کر کے آئے، اور ان کے سینوں میں ان (چیزوں) کی کوئی حاجت (رنجش) نہیں پاتی جو (مہاجرین کو) دی گئیں، اور وہ انہیں اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود انہیں شدید حاجت ہو۔” (سورۃ الحشر: 9)
- نتیجہ: تاریخ اسلام پر بیعت عقبہ کے اثرات
بیعت عقبہ ثانیہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک انقلابی تحریک کا نقطہ آغاز تھا۔ اس نے:
- اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی
- امت مسلمہ کی تشکیل نو کی
- دنیا بھر میں اسلام کے پھیلاؤ کا راستہ ہموار کیا
حدیث:
"الإسلام یعلو ولا یعلی علیه"
ترجمہ: "اسلام بلند ہوتا ہے، اس پر بلندی نہیں کی جاتی۔” (صحیح البخاری)
خاتمہ:
بیعت عقبہ ثانیہ کی روح کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنی زندگیوں میں اسی جذبہ ایمانی اور عزم مصمم کو زندہ کریں۔
وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین
آخرین دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
ماخذ و مراجع:
- القرآن الکریم
- صحیح البخاری
- صحیح مسلم
- سیرت ابن ہشام
- طبقات ابن سعد
- البدایہ والنہایہ
- الرحیق المختوم
- تاریخ طبری